” شہر فلسطین اور بیت المقدس “


بیت المقدس انبیاء کی سر زمین ، انبیاء کی مسکن ، اور پوری امت کے لیے قبلہ اول ، خانہ کعبہ سے پہلے دنیا بھر میں پھیلی امت مسلمہ کے لیے قبلہ اول تھا امت مسلمہ کے لیے ڈھڑکتا دل، امت مسلمہ کی امیدوں کا مرکز ہے۔
حضرت ابرہیم علیہ السلام نے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی، اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے لوط علیہ السلام کی قوم کو اس عذاب سے نجات دی جو انکی قوم پر اسی جگہ نازل ہوا تھا ، حضرت داؤد علیہ السلام نے اسی سر زمین پر سکونت رکھی اور یہیں اپنا ایک محراب بھی تعمیر فرمایا، حضرت سلیمان علیہ السلام اسی ملک میں بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت فرمایا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے اس سر زمین کو انبیاء کی سر زمین بھی کہا جاتا ہے۔


۔ آج ہر مسلمان کے لیے یہ امر باعث تکلیف ہے کہ انبیاء کی سرزمین عرصہ دراز سے یہودیوں کے قبضے میں ہے، ظالم و جابر صیہونیوں نے فلسطینیوں پر اور بیت المقدس پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں غزہ کا محاصرہ کئی برسوں سے جاری ہے آج غزہ کی سرزمین فلسطینیوں کے لیے کربلا بن چکی ہے ۔ کہ جہاں ان پر پانی بند کردیا گیا ، ان کی بجلی معطل کردی گئی، تمام تر رابطے ختم کردیے گئے ہیں اور صرف اور صرف آگ اور بارود کی بارش برسائی جا رہی ہے۔ لیکن فلسطینیوں کی ہمت و جرات کو سلام ، انکے ایمان کو سلام کہ ہر مشکل سے مشکل تر حالات میں بھی ثابت قدم رہے اور اپنی آخری سانس تک یہودیوں سے لڑتے رہے ، لڑ رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے انشاءاللّٰہ ۔ کیونکہ فلسطینی یہ جانتے ہیں کہ مسجد اقصیٰ ( بیت المقدس) مقام اسراء و معراج ہے اور اسرائیل جیسی ناپاک وجود کا قبضہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے ۔


آج بیت المقدس پر یہود قابض ہیں، بہت المقدس لہو لہو ہے اور اس پیاری مسجد اقصیٰ کو بچانے والوں کا خون غزہ کی گلیوں میں بہہ رہا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اپنی زندگیوں کی پرواہ نہیں بس اللّٰہ کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہیں یہاں تک کہ فلسطینی بچے بھی بیت المقدس کی حفاظت پر مامور ہیں۔ انکی رگوں میں بسی ایمان کی خوشبو اور ایمان کی طاقت یہودیوں کے آگے ایک ایٹمی طاقت ہے ، یہ وہ لوگ ہیں جنکا راستہ صرف مزاحمت ہے اور آرزو صرف ش ہ ادت ہے۔ اسرائیل پوری امت مسلمہ کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہے لیکن اس رائی لی یہ نہیں جانتے کہ اللّٰہ کے سپاہیوں کو اللّٰہ کی مدد درکار ہوتی ہے اور ایمانی قوت پر بھروسہ رکھتے ہیں۔ آج جب ح م اس نے اسرائیلیوں پر حملہ کیا تو انھوں نے اسکے انجام کی پرواہ نہیں کی بس اپنے بیت المقدس کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ دو ہزار برس سے ی ہودی وں کا مقصد یہ ہے کہ بیت المقدس ہمارا ہو جائے اور ہم پھر سے ہیکلِ سلیمانی تیار کریں۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ مسلمانوں کا ایمان ہی انکے لیے ایٹمی طاقت رکھتا کہ اگر مسلمان جنگ جیتتا ہے تو وہ اپنے ایمان کی طاقت سے جنگ جیتتا ہے نہ کہ ٹیکنالوجی سے۔ بے شک مسلمان تعداد میں کم ہوں مگر اللّٰہ کی مدد و نصرت حاضر رہتی ہے ۔ یاد رکھو غزوہ بدر کی تاریخ جب مسلمان تعداد میں صرف 313 تھے اور ک ف ار کا لش کر 2000 پر مشتمل تھا لیکن فتح پھر بھی مسلمانوں کی ہوئی کیونکہ مسلمان ثابت قدم رہے۔ انشاءاللّٰہ وہ دن دور نہیں جب غزوہ بدر کی تاریخ دوبارہ دھرائی جائے گی اور گونجے گا تکبیر کا نعرہ اللّٰہ اکبر۔


اپنے بچوں کو فلسطین اور بیت المقدس کی تاریخ سے آگاہ کریں اور اسکی جدوجہد کے لیے تیار کریں کیونکہ قبلہ اول کی آزادی کے لیے جدوجہد ہر مسلمان پر فرض ہے، ہر مسلمان کے ایمان اور محبت رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا تقاضہ ہے۔

#فلسطین