نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مومنوں کی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت و مودت اور باہمی ہمدردی کی مثال جسم کی طرح ہے کہ جب اس کا کوئی عضو تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے بایں طور کہ نیند اڑ جاتی ہے اور پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے“۔
غزہ کے معاملے میں ہر کوئی اپنے ملک، اپنے فرقے،اور اپنے مسلک کے تحفظات کی بنیاد پر لکھ ، بول اور شیئر کر رہا ہے ۔
لیکن !
کاتب تقدیر اور تاریخ جب لکھے گا تو وہ ان تعصبات اور تحفظات سے آزاد ہو کر لکھے گا ۔
جب سوال ہو گا کہ تو کسی خاص قوم مسلک یا فرقے سے سوال نہیں ہو گا ، سب مسلمانوں سے سوال ہو گا ۔
کس بنیاد پر آپ کا گمان ہے جب روز قیامت حساب و کتاب کے دفتر کھلیں گے اور غزہ کی لاشیں زندہ کی جائیں گی تب کہا جائے گا کہ کچھ مسلمان اس کے مجرم ہیں باقی باعزت بری کیے جاتے ہیں۔
کیا ایک واحد ایٹمی طاقت سے ان مظلوموں کا حساب نہ ہو گا کہ جو کہتے نہ تھکتے تھے کہ ہم واحد ایسا ملک ہیں کہ جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا.
پھر برادر ملک ترکی ؟ وہ جس کے بارے میں ہمارے کچھ احباب کی زبان نہیں تھکتی کہ ابھی آیا اور ابھی آیا نظام خلافت اور مظلوموں کی سنی جائے گی ؟؟ وہ ترکی کیوں زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ رہا ؟ کہاں گئے اس کے تیر و تلوار و تفنگ ؟؟؟
سب سے بڑا لطیفہ تو قطر کا رہا امیر قطر کا اول وقت میں ہی بیان آ گیا۔۔۔کہ بس ! مزید نہیں برداشت کریں گے۔۔۔۔۔۔سب واہ واہ کرنے لگے احتجاج ، گالی گلوچ ، برا بھلا سب چل رہا تھا لیکن سب کو بھول گیا کہ دوحہ کے عین بیچ میں بھی اسرائیل کا سفارت خانہ موجود ہے اور ان کے آپس میں باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہیں ۔ساتھ ہی ساتھ قطر امریکہ کا گہرا اور قریبی اتحادی ہے جہاں وہ امریکی اڈے قائم ہیں کہ جن سے جہاز اڑ کر شام و عراق کے معصوم عوام کو قتل۔۔کرتے رہے ۔
اور وہ ایران آج کل کدھر پایا جاتا ہے ؟
شور و غل میں جو ہمیشہ آگے رہا ، آج کل کوئی اس پر سوال کیوں نہیں اٹھاتا کہ جناب آیت اللہ صاحب ۔۔۔ کون سی آیت آپ کو اس خواب خرگوش سے جگائے گی ؟؟
وہ ایران کہ جو دور بیٹھا صبح و شام “بڑھکیں” مارتا ہے ” مرگ بر فلاں ، مرگ بر فلاں ” کے نعرے لگاتا ہے اور عالم یہ ہے کہ پورے ایران میں ایک فلسطینی ریفیوجی کو پناہ نہیں دی گئی ۔ مجھے ہمیشہ ہی حیرت ہوتی ہے کہ عام لوگوں کی “مت ماری” گئی ہے کہ ایرانی قیادت کی کسی ایک آدھ بھڑک کے نتیجے میں ان کو مجاہد جاننے لگتے ہیں۔او بھائی ! عراق ایران جنگ میں اسرائیل سے یہ باقاعدہ اسلحہ خریدتے رہے ہیں اور اس کو دونوں طرف کے ذمہ دار افراد نے ماضی میں تسلیم بھی کیا ہے۔
عرب بھی بجا طور پر مجرم ہیں ، کہ ان کا فرض تھا کہ آگے بڑھتے اور اس معاملے کی قیادت کرتے ۔۔لیکن سب کو معلوم ہے کہ ان کی صلاحیت محض اتنی ہے کہ وہ اس معاملے کا کوئی سیاسی حل کر پائیں۔ سیز فائر کی کوئی صورت نکل آئے، بعد ازاں اپنے مال و دولت سے ٹوٹے گھر دوبارہ تعمیر کروا دیں ۔۔ اس سے زیادہ ان کی کوئی اوقات نہیں ۔۔
سب اسلامی ممالک کی اوقات اتنی کیوں نہ ہوئی کہ وہ طاقت کا استعمال کرتے بجائے اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کرنے کو بھاگے نہ جاتے ۔
جب یہ فلسطینیوں کی طرف سے راکٹ باری ہوئی اور “اسرائیلیوں” کے ایک دم سینکڑوں ہزاروں مر گئے تو وہ اقوام متحدہ میں قرارداد پیش کرنے بھاگے نہیں گئے تھے کہ ہمارے اوپر جو راکٹ گر رہے ہیں ان کو روکا جائے ۔
انہوں نے جوابی طور پر ہوا میں اپنے طیارے بلند کیے اور اس کے بعد مسلسل بمباری کر رہے ہیں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ غزہ میں شاید ہی کوئی عمارت باقی بچی ہو ۔ انہوں نے سب ملیامیٹ کر دیا ، ہزاروں عورتیں ، بچے مار دیے ۔انہوں نے کوئی قرارداد پیش نہیں کی ، عمل کیا۔
درحقیقت سب مسلم ممالک مجرم ہیں اس معاملے پہ ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں اور اپنے آپ کو کلین چٹ دیتے ہیں یہ سب بھی منافقت کے اعلی درجے پر فائز ہیں ۔
اللہ پاک فلسطین پہ خود ہی اپنا کرم فرمائے اور غیب سے ان کی مدد فرمائے۔
بے شک
❤️