سبق آموز۔۔۔! دوغلے رویے کی سزا ۔۔۔! Instructive: Punishment of Dual-Face

ایک جنگل میں بہت سارے جانور رہا کرتے تھے لیکن وہ سب آپس میں لڑتے رہتے۔ان جانوروں میں دو گروہ بن گئے تھے۔ایک چوپایوں کا اور دوسرا پرندوں کا۔ان دونوں گروہوں نے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر فیصلہ کیا کہ ہمیں ایک بادشاہ چن لینا چاہیے جو ہمارے جھگڑوں کا فیصلہ کر سکے۔لیکن اس بات پر بھی ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا کہ بادشاہ کا انتخاب کیسے کیا جائے․․․․؟پرندوں کا اصرار تھا کہ بادشاہ کوئی پرندہ ہونا چاہیے،جبکہ جانوروں کا کہنا تھا کہ بادشاہ جانوروں میں سے ہونا چاہیے۔

شیر نے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کر دیا اور پرندوں کی طرف سے عقاب نے اپنی خدمات پیش کیں لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا۔چوپائے اپنے ساتھیوں کی حمایت اور تعریف میں لگے ہوئے تھے تو پرندے اپنی اہمیت جتا رہے تھے۔

اس بحث کے دوران چمگادڑ کا رویہ بڑا عجیب و غریب تھا۔وہ جب دیکھتی کہ پرندے جیت رہے ہیں تو وہ ان کی حمایت کا اعلان کر دیتی اور جب دیکھتی کہ جانوروں کا پلڑا بھاری ہے تو جانوروں میں شامل ہو جاتی اور جانور ہونے کا دعویٰ کرتی۔


یہ سلسلہ چلتا ہی رہا اور آخر جانور پرندوں پر بازی لے گئے۔شیر کو جنگل کا بادشاہ بنا دیا گیا۔اب تمام جھگڑوں کا فیصلہ شیر ہی کرتا تھا۔شیر کے اچھے رویے کی وجہ سے جانور تو جانور،پرندے بھی مطمئن ہو گئے تھے مگر ان دونوں گروہوں کو چمگادڑ کے دوغلے رویے پر بے حد غصہ آتا تھا۔
شیر کے جیتنے کے بعد جب چمگادڑ اس کو مبارکباد دینے پہنچی تو سب نے اسے دھکے دے کر باہر نکال دیا کہ تم تو پرندوں میں شامل ہو کیونکہ کسی بھی چوپائے کے پَر نہیں ہوتے۔

چمگادڑ روتی پیٹتی پرندوں کے پاس پہنچی اور کہا کہ چوپایوں نے مجھے مار بھگایا ہے کیونکہ میں جانور نہیں ہوں لیکن پرندوں نے اس کا مذاق اُڑاتے ہوئے کہا کہ تم چوپایوں میں شامل ہو کیونکہ پرندے تو انڈے دیتے ہیں جبکہ تم اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہو۔
یہ کہہ کر سب نے اسے وہاں سے مار بھگایا۔چمگادڑ نے بہت کہا کہ میں پرندوں میں شامل ہوں مگر کسی پرندے نے اسے اپنے ساتھ شامل نہ کیا۔

اس کے بعد سے چمگادڑ کی زندگی تنہا گزرنے لگی۔وہ اب بھی تنہا ہے اور اپنی بری عادت کی سزا بھگت رہی ہے۔
جب کبھی وہ خود کو مجرم سمجھنے لگتی ہے تو سزا کے طور پر درخت سے اُلٹی لٹک جاتی ہے اور روتی ہے اور جب سب پرندے سو جاتے ہیں تو رات کو سناٹے میں باہر آ جاتی ہے کہ کہیں کوئی پرندہ دیکھ نہ لے۔دوغلے رویے نے اسے منہ چھپانے پر مجبور کر دیا ہے۔

In a forest, there were many animals who were constantly fighting among themselves. The animals had split into two groups: one of quadrupeds and the other of birds. Tired of the daily quarrels, they decided to choose a king who could resolve their disputes. However, another uproar ensued over how to select the king. The birds insisted that the king should be a bird, while the animals argued that the king should be from among the quadrupeds.

The lion claimed the kingship from the animals’ side, and the eagle offered its services from the birds’ side, but the issue remained unresolved. The quadrupeds were busy supporting and praising their candidate, while the birds emphasized their own importance.

During this debate, the bat’s behaviour was quite strange. Whenever it saw that the birds were winning, it would declare its support for them. When it saw the animals gaining the upper hand, it would join them and claim to be an animal.

This continued, and eventually, the animals prevailed over the birds. The lion was made the king of the jungle. Now, the lion resolved all disputes. Due to the lion’s good behavior, both the animals and the birds were satisfied, but both groups were extremely angry with the bat’s double-faced behaviour.

After the lion won, when the bat went to congratulate him, everyone pushed it out, saying that it belonged to the birds because no quadruped has wings.

The bat, crying and wailing, went to the birds and said that the animals had driven it away because it was not an animal. But the birds mocked it, saying that it belonged to the animals because birds lay eggs, while it fed its young with milk. Saying this, they also chased it away.

The bat insisted that it belonged to the birds, but no bird accepted it.

Since then, the bat has lived a lonely life. It is still alone and suffering the consequences of its bad habit. Whenever it feels guilty, it hangs upside down from a tree as a form of punishment and cries. When all the birds are asleep, it comes out at night in silence so that no bird can see it. Its double-faced behaviour has forced it to hide its face.