برسوں پہلے کی بات ہے کہ جنگل میں ایک چوہا رہتا تھا۔اس کے بل کے قریب ہی اخروٹ کا ایک بڑا درخت تھا۔جب اخروٹ پکتے تو چوہا بہت خوش ہوتا،کیونکہ ہوا سے پکے ہوئے اخروٹ چوہے کے بل کے بالکل آس پاس آ گرتے تھے اور وہ مزے لے لے کر اخروٹ کترتا اور گری نکال کر کھا جاتا۔ایک مرتبہ اس نے سوچا کہ اگر میں اخروٹوں کو محفوظ کر لوں تو سال بھر ان کے مزے لے سکتا ہوں۔
وہ کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر پھرنے لگا۔اس کے بل میں بہت جگہ تھی،مگر جب بارشیں زیادہ ہوتیں تو پانی اس کے بل میں بھر جاتا تھا۔وہ ایک سوکھے ہوئے درخت کے پاس پہنچا۔درخت کے تنے میں اسے سوراخ نظر آیا۔اس نے اندر جھانکا تو خوشی سے وہ اچھل پڑا۔وہ درخت اندر سے کھوکھلا تھا۔
چوہے نے سوچا کہ اخروٹ ذخیرہ کرنے کی اس سے محفوظ جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔
اب وہ اخروٹ لا کر اس کھوہ میں رکھتا جاتا۔ایک ہی دن میں اس نے اخروٹوں سے کھوہ کو بھر دیا۔وہ اپنے اس ذخیرے سے بے حد خوش تھا۔وہ ہر روز وہاں جاتا اور ایک آدھ اخروٹ کتر کر گری کھاتا۔چوہا اپنے اس خزانے سے مطمئن تھا۔اسے سردیوں کی کوئی فکر نہ تھی۔
ایک دن وہ اپنے بل کے باہر بیٹھا ہوا تھا کہ اسے ایک گلہری نظر آئی۔چوہے نے گلہری کو بلایا اور اسے بتایا کہ میں نے درخت کی کھوہ میں اخروٹوں کا ایک ذخیرہ چھپایا ہوا ہے۔
یہ راز کی بات ہے اور میں صرف تم کو بتا رہا ہوں۔
گلہری اس کی بات سن کر حیران ہوئی۔تھوڑی دیر بعد پھدکتی ہوئی ایک درخت پر چڑھ گئی۔درخت کی چوٹی پر ایک بلبل بیٹھی گیت گا رہی تھی۔گلہری کو چوہے کی وہ بات یاد آئی۔اس نے بلبل کو بلا کر کہا:”تم میرے پاس آؤ،میں تمہیں ایک راز کی بات بتاتی ہوں“۔
بلبل اُڑ کر گلہری کے بالکل قریب آکر شاخ پر بیٹھ گئی۔
اب گلہری نے اسے ساری بات بتائی اور یہ بھی کہا:”یہ راز کی بات ہے۔میں صرف تمہیں بتا رہی ہوں۔”بلبل بھی یہ بات سن کر بہت حیران ہوئی۔وہ دوبارہ گیت گانے لگی۔پھر وہ اُڑتی ہوئی ایک کھیت کے اوپر سے گزری۔کھیت میں ایک خرگوش گھاس کھانے میں مصروف تھا۔بلبل خرگوش کے قریب جا کر بیٹھی اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا:”میرے پاس ایک راز کی بات ہے۔
اگر تم سننا چاہو تو ذرا غور سے سنو“۔
خرگوش اُچھل کر بلبل کے پاس پہنچ گیا۔بلبل نے بڑی راز داری سے خرگوش کو بتایا:”کسی نے کھوہ والے درخت کے تنے میں اخروٹ ذخیرہ کیے ہوئے ہیں۔یہ راز کی بات ہے اور میں صرف تمہیں بتا رہی ہوں۔“خرگوش نے حیرانی سے اپنے بڑے بڑے کانوں کو دائیں بائیں گھمایا اور گھاس کھانے لگا۔جب اس کا پیٹ بھر گیا تو وہ اُچھلتا کودتا اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا،راستے میں اسے ایک خار پشت (سیہی) ملا۔
خرگوش نے خارپشت سے کہا:”میرے پاس ایک راز کی بات ہے،اگر تم کسی کو نہ بتاؤ تو میں تمہیں بتانے کو تیار ہوں؟
خارپشت نے کہا:”ٹھیک ہے،میں تمہاری بات مانتا ہوں۔اب تم مجھے وہ راز کی بات بتاؤ؟
خرگوش نے کہا:”وہ بڑے درخت کے قریب جو سوکھا ہوا درخت ہے،اس کی کھوہ میں کسی نے اخروٹ ذخیرہ کیے ہوئے ہیں۔”خارپشت نے یہ سن کر حیرت سے اپنی چھوٹی سی تھوتھنی کو ہلایا اور اپنے نوکیلے کانٹوں والے لباس کے اندر خود کو چھپا لیا۔
خرگوش لمبی لمبی چھلانگیں لگاتا ہوا اپنے گھر پہنچا۔خارپشت اپنی خوراک کی تلاش میں پھرنے لگا۔اسے جلد ہی اپنی مرغوب غذا کی بیل نظر آگئی۔خارپشت کو یہ میٹھی میٹھی جڑیں بہت پسند تھیں۔وہ جڑیں نکالنے کے لئے زمین کھودنے لگا۔اتنے میں ایک فاختہ کی آواز سنائی دی۔خارپشت نے اپنی چھوٹی سی گردن اکڑا کر دیکھا تو قریب ہی شیشم کے درخت پر بیٹھی فاختہ اسے نظر آگئی۔
اس نے اپنے گلے سے مخصوص خرخراہٹ کی آواز نکال کر فاختہ کو اپنے پاس بلایا۔
خارپشت نے فاختہ سے کہا:”میں نے ایک راز کی بات سنی ہے،اگر تم پسند کرو تو میں تمہیں بتاؤں؟
فاختہ نے ہاں میں اپنی گردن ہلائی۔خارپشت نے کہا:”بڑے کھیت کے کنارے جو سوکھا ہوا درخت ہے۔اس کی کھوہ میں کسی نے اخروٹ ذخیرہ کر رکھے ہیں“۔
فاختہ کے لئے یہ دلچسپ اور عجیب بات تھی۔
وہ تھوڑی دیر بعد دانہ دنکا چگنے کے لئے اُڑتی ہوئی اس بڑے کھیت میں پہنچی کہ جس کے کنارے پر سوکھا ہوا درخت تھا۔اسے ایک چھوٹا سا چوہا نظر آیا جو کہ اپنا بل کھودنے میں مصروف تھا۔فاختہ اس کے قریب پہنچی اور کہا:”میرے پاس ایک بڑے مزے کی بات ہے،اگر تم کسی کو نہ بتاؤ تو میں تمہیں بتاؤں گی“۔
چوہا زمین کھودنے کا کام چھوڑ کر فاختہ کے قریب آ کر بیٹھا اور کہنے لگا:”مجھے تم وہ بات بتاؤ۔
میں کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا“۔
فاختہ نے سوکھے ہوئے درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:”اس کے کھوکھلے تنے میں کسی نے اخروٹ چھپا رکھے ہیں“۔
اخروٹوں کا نام سن کر چھوٹے چوہے کے منہ میں پانی بھر آیا۔وہ اخروٹ کترنے میں بہت لطف محسوس کرتا تھا۔تھوڑی دیر بعد جب فاختہ وہاں سے اُڑ کر چلی گئی تو چھوٹے چوہے نے سوچا کہ کیوں نہ میں جا کر فاختہ کی بات کی تصدیق کر لوں۔
چنانچہ وہ سوکھے ہوئے درخت کے پاس پہنچا۔اسے تنے میں ایک سوراخ نظر آیا۔اس نے سوراخ میں جھانک کر دیکھا تو واقعی کھوہ کے اندر اخروٹوں کا ایک ڈھیر محفوظ تھا۔اس نے جلدی سے ایک اخروٹ نکالا۔اسے کترا اور اس کی گری مزے لے لے کر کھانے لگا۔اچانک اس کے ذہن میں ایک زبردست ترکیب آئی۔اس نے سوچا کہ کیوں نہ میں یہ سارے اخروٹ نکال کر اپنے بل میں لے جاؤں۔
چنانچہ وہ ایک ایک اخروٹ نکال کر اپنے بل میں لے گیا۔وہ سارا دن اخروٹ اپنے گھر منتقل کرنے میں لگا رہا۔اسی شام بڑے چوہے کے گھر اتفاقاً گلہری،بلبل،خرگوش،خارپشت اور فاختہ جمع ہو گئے۔اب ان میں سے ہر ایک نے چوہے کو بتایا کہ سوکھے درخت کے کھوکھلے تنے میں کسی نے اخروٹ چھپا رکھے ہیں۔یہ کیسی مزے دار راز کی بات ہے۔چوہے نے حیرانی سے پوچھا:”تم سب کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟یہ تو میرا راز ہے“‘۔
”اچھا اگر تمہیں پتا چل ہی گیا ہے تو کوئی بات نہیں۔آؤ میں تمہیں وہ ذخیرہ دکھاتا ہوں“۔
سب جانور سوکھے درخت کے پاس پہنچے اور سوراخ میں سے درخت کی کھوہ میں جھانکا،مگر وہاں تو کوئی اخروٹ موجود نہ تھا۔سب بہت حیران ہوئے۔
اب چوہا بہت افسوس کرنے لگا سوائے افسوس کے اور وہ کر بھی کیا سکتا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر میں اپنے راز کو صرف خود تک محدود رکھتا تو کبھی بھی نقصان نہ اٹھاتا۔
Years ago, there lived a mouse in a forest. Near his burrow, there was a large walnut tree. When the walnuts ripened, the mouse was very happy because the ripe walnuts would fall right around his burrow due to the wind. He would enjoy nibbling on the walnuts and eating the kernels. One day, he thought that if he could store the walnuts, he could enjoy them throughout the year.
He started looking around for a safe place. His burrow had plenty of space, but when it rained heavily, it would fill with water. He reached a dried-up tree and saw a hole in its trunk. When he peered inside, he jumped with joy. The tree was hollow inside.
The mouse thought that no place could be safer than this hollow tree for storing the walnuts.
He began bringing the walnuts and storing them in the hollow. Within a day, he filled the hollow with walnuts. He was very pleased with his stockpile. He would go there every day, nibbling on a walnut and eating the kernel. The mouse was very satisfied with his treasure and had no worries about the winter.
One day, while sitting outside his burrow, he saw a squirrel. The mouse called the squirrel and told her that he had hidden a stockpile of walnuts in the hollow of a tree. He said, “This is a secret, and I’m only telling you.”
The squirrel was surprised to hear this. After a while, she hopped onto a tree. At the top of the tree, a nightingale was singing a song. The squirrel remembered what the mouse had said. She called the nightingale and said, “Come to me; I have a secret to tell you.”
The nightingale flew close and sat on a branch. The squirrel told her the whole story and added, “This is a secret. I’m only telling you.” The nightingale was also very surprised to hear this. She resumed singing. Later, she flew over a field. In the field, a rabbit was busy eating grass. The nightingale sat near the rabbit and said, “I have a secret. If you want to hear it, listen carefully.”
The rabbit hopped over to the nightingale. The nightingale whispered to the rabbit, “Someone has stored walnuts in the hollow of a tree trunk. This is a secret, and I’m only telling you.” The rabbit wiggled his big ears in surprise and resumed eating grass. When his belly was full, he hopped towards his home. On the way, he met a porcupine.
The rabbit said to the porcupine, “I have a secret. If you promise not to tell anyone, I’ll tell you.”
The porcupine agreed and said, “Okay, I promise. Now tell me the secret.”
The rabbit said, “Near the big field, in the hollow of a dried-up tree, someone has stored walnuts.” The porcupine wiggled his little snout in surprise and hid inside his spiky coat.
The rabbit hopped home. The porcupine resumed looking for his food. Soon, he found a vine with his favourite sweet roots. He started digging to unearth the roots. At that moment, a dove cooed nearby. The porcupine stretched his small neck and saw a dove sitting on a Shisham tree.
He made his characteristic grumbling sound to call the dove over. The porcupine said to the dove, “I heard a secret. If you want, I’ll tell you.”
The dove nodded. The porcupine said, “In the hollow of a dried-up tree near the big field, someone has stored walnuts.”
The dove found this interesting and curious. After a while, she flew to the big field to peck at grains. There, she saw a little mouse busy digging his burrow. The dove approached him and said, “I have something exciting to tell you. If you promise not to tell anyone, I’ll tell you.”
The little mouse stopped digging and sat near the dove, saying, “Tell me. I won’t tell anyone.”
The dove pointed to the dried-up tree and said, “In its hollow trunk, someone has hidden walnuts.”
Hearing about the walnuts, the little mouse’s mouth watered. He loved nibbling on walnuts. After the dove flew away, he decided to check the dove’s story. He went to the dried-up tree and saw a hole in the trunk. He peered inside and saw a pile of walnuts stored inside. He quickly took out a walnut, nibbled it, and enjoyed the kernel. Suddenly, he had a great idea. He thought, “Why not take all these walnuts to my burrow?”
He spent the whole day transporting the walnuts to his home. That evening, the big mouse’s house was coincidentally visited by the squirrel, nightingale, rabbit, porcupine, and dove. Each of them told the mouse about the secret stockpile of walnuts in the hollow tree trunk. The mouse was astonished and asked, “How do all of you know about this? This was my secret.”
“Well, since you all know, let me show you the stockpile.”
All the animals went to the dried-up tree and peered inside the hollow, but there were no walnuts. They were all very surprised.
The mouse felt very regretful, but there was nothing he could do. He thought, “If I had kept my secret to myself, I would never have suffered this loss.”