سبق آموز۔۔۔! حضرت عیسٰی علیہ السلام کا واقعہ instructive: incident of Hazrat Esa (A.S)

One day, Hazrat Esa (A.S) was going to the forest. There was a person with him.The person said to Hazrat Esa (A.S.)! Tell me also the method of bringing the dead back to life.


Hazrat Esa (A.S.) said: It is in God’s power to bestow miracles on those whom He deems worthy. Every person can not make a dragon by throwing a stick. Neither can he put his hand in the dragon’s mouth and turn it into a stick again.

On hearing this, the person said, “O prophet of God, if this request of mine is not acceptable, then bring the dead back to life in front of me from these bone laying in front.”

Hazrat Esa (A.S.) asked Allah Almighty, “O Allah, this person is very stubborn. He does not think about his profit or loss. If it is your command, let me show him a miracle.” It is decreed that when it buys its own death, then you are acquitted.


When Hazrat Esa (A.S.) recited on these bones, a big angry black lion stood up and he lashed out and hit the man’s head with such a hard claw that his brain came out and the man died.


It happened in an instant. Hazrat Esa (A.S) said to the lion, “Why did you finish him as soon as you got up?””

The lion said because he hurt you unjustly. Hazrat Esa asked why you did not drink his blood. The lion replied, “My livelihood has risen from the world.”

Do not take the test of the representative of God. You will not gain anything except disgrace.


حضرت عیسیٰ ؑایک روز جنگل میں جا رہے تھے۔ ساتھ ایک شخص تھا۔ عرض کرنے لگا حضرت! مجھے بھی مردوں کو زندہ کرنے کا ڈھب بتا دیجیے۔ آپؑ نے فرمایا معجزات عطا کرنا اللہ کے اختیار میں ہے جس کو وہ اہل سمجھتا ہے عطا کرتا ہے ہر شخص عصا پھینک کر اژدہا نہیں بنا سکتا۔ نہ اژدہا کے منہ میں ہاتھ ڈال کر اسے پھر لاٹھی بنا سکتا ہے۔ اژدہا کے منہ میں ہاتھ وہی ڈالتا ہے جسے اژدہا بنانا آتا ہے۔ یہ سن کر وہ بولا یا روح اللہ اگر میری یہ عرض قابل پذیرائی نہیں تو میرے سامنے مردہ زندہ کر کے دکھا دیجیے۔ یہ ہڈیاں پڑی ہیں ان میں قم باذن اللہ کہہ کر روح پھونک دیجیے۔

حضرت عیسیٰؑ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ یا اللہ یہ شخص بڑا ضدی ہے اپنا نفع نقصان نہیں سوچتا تیرا حکم ہو تو اسے معجزہ دکھا دوں۔ حکم ہوا جب یہ اپنی ہلاکت خود خریدتا ہے تو تم بری الذمہ ہو۔ الغرض حضرت عیسیٰؑ نے ان ہڈیوں پر قم باذن اللہ پڑھا تو ایک بڑا غضبناک سیاہ شیر بن کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے جست کر کے اس شخص کے سر پر ایسا سخت پنجہ مارا کہ اس کا بھیجا نکل کر باہر جا پڑا اور وہ شخص تڑپ کر ایک دم میں سرد ہو گیا۔

حضرت عیسیٰؑ نے شیر سے کہا تو نے اٹھتے ہی اس کا کام کیوں تمام کر دیا۔ شیر بولا اس لیے کہ اس نے آپؑ کو ناحق تکلیف دی۔حضرت عیسیٰؑ نے پوچھا پھر تو نے اس کا خون کیوں نہیں پیا۔ شیر نے جواب دیا میرا رزق دنیا سے اٹھ چکا ہے۔

مولانا یہ حکایت بیان کرتے ہیں: “اے بسا کس ہمچوآں شیر زیاں صید خود ناخوردہ رفتہ از جہاں جمع کردہ مال رفتہ سوئے گور دشمناں در ماتم او کردہ شور “”یعنی دنیا میں بہت سی مثالیں ملیں گی کہ طمع سے مال جمع کرتے رہے مگر کھانا قسمت نہ ہوا۔ پھر فرماتے ہیں کہ تو اس شیر کے مارے ہوئے کی طرح اپنے کتے نفس کی زندگی کا کیوں طالب ہے؟ یہ نفس تجھے آخر ہلاک کر کے چھوڑے گا۔ تو کتا نہیں ہے پھر ہڈی پر کیوں عاشق ہے؟ تیری آنکھ کیسی ہے کہ اس میں بینائی نہیں؟ بزرگوں کا امتحان نہ لے اس میں سوائے رسوائی کے او رکچھ حاصل نہ ہو گا۔ (حکایاتِ رومیؒ سے ماخوذ)”

For more blogs, visit our website https://nzeecollection.com/category/nzs-entertainment/