It is said that a pair of parrot passed through a desert, seeing the desolation, the parrot asked the Hen-parrot,
“How desolate is the village,…?”
“The Hen-parrot said it seems that an owl has passed here.”
While the parrots were talking, at that moment, an owl was also passing by.
He heard the parrots and stopped there and addressed them and said,
You people are travellers in this village.Be my guest tonight.eat with me
The pair could not refuse the owl’s loving invitation and accepted the owl’s invitation.
After eating, they asked permission to leave,
but the owl took the Hen-parrot’s hand and said, ..where are you going?”
“It’s a matter of asking,” said the Hen-parrot proudly. I am going back with my husband.
Owl laughed hearing this..
And said.What are you saying? You are my wife.
On this, the parrots pounced on the owl, and the heat began.
When the argument between the two escalated,the owl made a proposal to the parrots and said, “Doing this, the three of us go to the court and present our case before the judge,
Whatever the judge decides, we will accept it.”
The parrots agreed to the owl’s suggestion, and the three appeared in the judge’s court.
In light of the arguments, the judge ruled in favour of Owl and dismissed the court.
The parrot walked away crying over this injustice, and the owl called him,
“Brother, where are you going alone? Take your wife with you,”
The parrot looked at the owl in surprise and said, “Now why do you sprinkle salt on my wounds,
where is my wife now
The court has declared her as your wife.
The owl heard the parrot and said softly,
No, my friend, this is your wife, not mine.
I just wanted to tell you that towns are not deserted because of owls.
Town are deserted when justice departs from them.
کہتے ہیں کہ ایک طوطا طوطی کا گزر ایک ویرانے سے ہوا ،
ویرانی دیکھ کر طوطی نے طوطے سے پوچھا
”کس قدر ویران گاؤں ہے،.۔.؟
“طوطے نے کہا لگتا ہے یہاں کسی الو کا گزر ہوا ھے“
جس وقت طوطا طوطی باتیں کر رہے تھے ،
عین اس وقت ایک الّو بھی وہاں سے گزر رہا تھا،
اس نے طوطے کی بات سنی اور وہاں رک کر ان سے مخاطب ہوکر بولا،
تم لوگ اس گاؤں میں مسافرلگتے ہو،
آج رات تم لوگ میرے مہمان بن جاؤ،
میرے ساتھ کھانا کھاؤ،
اُلو کی محبت بھری دعوت سے طوطے کا جوڑا انکار نہ کرسکا اور انہوں نے اُلو کی دعوت قبول کرلی،
کھانا کھا کر جب انہوں نے رخصت ہونے کی اجازت چاہی،
تو اُلو نے طوطی کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ..
تم کہاں جا رہی ہو
طوطی پرشان ہو کر بولی یہ کوئی پوچنے کی بات ہے ،
میں اپنے خاوند کے ساتھ واپس جا رہی ہوں۔۔۔،
الو یہ سن کر ہنسا..
اور کہا ..
یہ تم کیا کہ رہی ہوتم تو میری بیوی ہو.
اس پہ طوطا طوطی الو پر جھپٹ پڑے اور گرما گرمی شروع ہو گئی،
دونوں میں جب بحث و تکرار زیادہ بڑھی تواُلو نے طوطے کے کے سامنے ایک تجویز پیش کرتے ہوئے کہا
”ایسا کرتے ہیں ہم تینوں عدالت چلتے ہیں اور اپنا مقدمہ قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں،
قاضی جو فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا“
اُلو کی تجویز پر طوطا اور طوطی مان گئے اور تینوں قاضی کی عدالت میں پیش ہوئے ،
،قاضی نے دلائل کی روشنی میں اُلو کےحق میں فیصلہ دے کر عدالت برخاست کردی،
طوطا اس بے انصافی پر روتا ہوا چل دیا تو اُلو نے اسے آواز دی ،
”بھائی اکیلئے کہاں جاتے ہواپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“
طوطے نے حیرانی سے اُلو کی طرف دیکھا اور بولا ”اب کیوں میرے زخموں پر نمک چھڑکتے ہو،
یہ اب میری بیوی کہاں ہے ،
عدالت نے تو اسےتمہاری بیوی قرار دے دیا ہے“
اُلو نے طوطے کی بات سن کر نرمی سے بولا،
نہیں دوست طوطی میری نہیں تمہاری ہی بیوی ہے-
میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الو ویران نہیں کرتے.
بستیاں تب ویران ہوتی ہیں جب ان سے انصاف اٹھ جاتا ہے ……
For more blogs, visit our website https://nzeecollection.com/category/nzs-entertainment/