سبق آموز۔۔۔! کُفرانِ نعمت instructive: Disbelief of blessing

کسی مُلک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ اپنی رعایا میں ہر دل عزیز تھا۔ اُس کے ملک کا ہر خاص و عام اُس سے خوش تھا۔ اُس کا وزیر بھی اچھا تھا۔ بادشاہ روز صُبح اللہ کا نام لے کر اُٹھتا اور اپنی عوام کی بھلائی کے کاموں میں لگ جاتا۔ زندگی یونہی گُزر رہی تھی کہ کسی دُشمن مُلک نے حملہ کر دیا۔ بدقسمتی سے بادشاہ کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور بادشاہ کو قید میں ڈال دیا گیا۔ آہستہ آہستہ حالات پھر سے معمول پر آنے لگے۔ آنے والا نیا بادشاہ بھی رعایا کا دل جیتنے میں لگ گیا۔

زندگی پھر سے رواں دواں ہو گئی۔ مگر یہاں قیدی بادشاہ اپنے شب و روز یہ سوچنے میں لگانے لگا کہ آخر اُس سے کہاں ایسے کوئی غلطی یا گُناہ ہوا ہے جس کی سزا مل رہی ہے۔ بادشاہ قید خانے میں بھی اللہ کا شُکر ادا کر رہا تھا۔ اُس کا کھانا بھی وقت پر پہنچ جاتا تھا۔ لیکن جب دُوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا تو اُس کو شاہی چاولوں کی خُوشبو آنے لگتی۔ وہ سوچتا شاید آج اُس کے لئے شاہی کھانا آنے والا ہے مگر کھانا آتا تو وہی قیدیوں والا۔ وہ سمجھ نہیں پاتا تھا کہ آخر یہ خُوشبو کہاں سے آتی ہے۔

بادشاہ کو قید میں اب آٹھ ماہ ہونے کو تھے۔ ایک دن بادشاہ کو صُبح کا کھانا نہ دیا گیا اور دوپہر کا کھانا بھی اُس کے مقررہ وقت پر نہ پُہنچا۔ اب بادشاہ کو بھوک ستانے لگی کہ اچانک اُس کو وہی شاہی چاولوں کی خُوشبو آنے لگی۔ اُس نے اپنے قیدخانے میں موجود روشن دان سے آواز لگائی کہ اگر کوئی اللہ کا بندا اُس طرف ہے تو مُجھ کو کھانے کو کچھ دے میں بھوکا ہوں۔ قیدخانے کے باہر ایک آدمی تھا۔ اُس نے کپڑے کے اندر کچھ کھانا باندھ کر روشن دان سے اندر پھینک دیا۔ جب بادشاہ نے کپڑا کھولا تو اُس کو تعجب ہوا کہ یہ تو وہی شاہی چاول ہیں جس کی خُوشبو روز اُس کو آتی تھی۔ بادشاہ نے فوراً پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ دیوار کے اُس پار سے آواز آئی کے میں اک فقیر ہوں اور روز بھیک مانگنے کے لئے یہیں بیٹھتا ہوں۔
یہ سن کر بادشاہ کو مزید حیرانگی ہوئی، کیونکہ شاہی چاول ایک فقیر کے پاس کیونکر ہو سکتے ہیں؟ بادشاہ نے اپنے سوال کو فقیر کے سامنے رکھا۔ فقیر نے بادشاہ کو بتایا کہ وہ اس وقت جس دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اُس دیوار سے ایک نالی نکل رہی ہے جو کہ محل کے شاہی باورچی خانے سے ہے۔ وہ روز صُبح جب یہاں آتا ہے تو وہ اس نالی کے آگے ایک کپڑا باندھ دیتا ہے جس کی وجہ سے بہہ کر آنے والا کھانا اور چاول اس کپڑے میں رہ جاتا ہے اور پانی آگے چلا جاتا ہے۔ پھر وہ اس کھانے کو گھر لے جاتا ہے۔ اس میں سے چاول الگ کر کے اُن کو دھوتا ہے اور چاولوں کو سُکھا کر جمع کر لیتا ہے۔ اور اس ہی طرح سے اُس نے کافی چاول جمع کر رکھے ہیں۔ مگر اب وہ یہ کھانا اور جمع نہیں کر پا رہا۔ کیونکہ یہ کھانا تو اُس نے پہلے حُکمران کی حکومت میں جمع کیا تھا۔ اُس فقیر نے نہایت افسوس کے ساتھ بتایا کہ شاید اب کا بادشاہ اپنے ملازمین کو کھانا پھیکنے نہیں دیتا ہو گا۔ یہ سُنتے ہی بادشاہ سمجھ گیا کہ آخر اُس کو کس گُناہ کی سزا ملی ہے۔

فقیر جب اپنی بات کہہ چُکا تو اُس نے بادشاہ سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور قیدخانے میں کیونکر ہے؟ بادشاہ نے اشکبار ہو کر اس کا جواب دیا کہ وہ ایک بدنصیب بادشاہ تھا اور وہ اس وقت اپنے اللہ کی نعمت کو ضائع کرنے کی سزا کاٹ رہا ہے۔

اللہ کی نعمت صرف اناج ہی نہیں ہے بلکہ ہر وہ ہلال چیز ہے جس کے استعمال سے ہم کو سکون فراہم ہوتا ہے ۔ ہوا، پانی، مکان، کپڑا، پٹرول، گیس اور بجلی ۔۔۔ یہ سب ہمارے اللہ کی نعمتیں ہیں۔

جو چیز آپ کے قابل استعمال نہ ہو آپ اُس کو اپنے کسی ضرورت مند بھائی بہن کو دے دیں۔ جیسا کہ آپ لوگ جانتے ہو کہ آج کل پاکستان بُہت سی مُشکلات میں ہے کہیں یہ مُشکلات بھی تو ہمارے کسی کُفرانِ نعمت کا ہی تو نتیجہ نہیں؟


A king ruled over a country. He was dear to all his subjects. Every noble and commoner of his country was happy with him. His minister was also good. The king used to wake up in the morning with the name of Allah and started working for the welfare of his people. Life was going on until an enemy country attacked. Unfortunately the king was defeated and the king was imprisoned. Gradually, the situation returned to normal. The incoming new king also began to win the hearts of his subjects. Life went on again.

But here the imprisoned king began to spend his days and nights thinking that where has he committed any mistake or sin for which he is being punished. The king was thanking Allah even in the prison.His food also arrived on time. But when it was time for lunch, he started to smell the royal rice. He thought that perhaps the royal food would come for him today, but if the food came, he would be the prisoner. He could not understand where this smell was coming from.

The king was about to spend eight months in prison. One day, the king was not given breakfast and his midday meal did not arrive at the appointed time. Now the king started to feel hungry that suddenly he started smelling the same royal rice. He called out to the luminary in his prison that if there is a servant of Allah on that side, give me something to eat, I am hungry.

There was a man outside the prison. He tied some food inside a cloth and threw it inside with a light.When the king opened the cloth, he was surprised to find that it was the same royal rice whose fragrance was coming to him every day. The king immediately asked who are you? A voice came from the other side of the wall. I am a fakir and I sit here daily to beg.

The king was even more surprised to hear this, because how can a pauper have royal rice? The king put his question to the fakir. The fakir told the king that there was a drain coming out of the wall by which he was sitting, which was from the royal kitchen of the palace. When he comes here in the morning, he ties a cloth in front of the drain, due to which the food and rice that flow away are left in the cloth and the water goes forward. Then he takes this food home.He separates the rice from it and washes it and collects the rice after drying it. And in the same way he has accumulated enough rice.

But now he is not able to collect this food anymore. Because he had previously collected this food in the ruler’s government. The poor man said with great regret that the present king would not allow his servants to waste food. After hearing this, the king understood for what sin he had been punished.

When the fakir had finished speaking, he asked the king who he was and how he was in prison. The king was shocked and replied that he was an unlucky king and that he was currently serving the punishment for wasting his God’s blessing. Allah’s blessing is not only grain, but every halal thing, the use of which gives us peace. Air, water, house, cloth, petrol, gas and electricity. All these are the blessings of our Allah. Whatever you cannot use, give it to a brother or sister in need. As you guys know that today Pakistan is in a lot of problems۔

Somewhere these difficulties are not the result of our disbelief.