یاد ہے رُستم و سہراب ہوا کرتے تھے
عشق اور جنگ کے آداب ہوا کرتے تھے
یاد ہے لوگ قَناعت کی قبا اوڑھے ہوئے
زرد موسم میں بھی شاداب ہوا کرتے تھے
یاد ہے خستہ مکانوں میں فرشتوں جیسے
لوگ وہ گوہرِ نایاب ہوا کرتے تھے
یاد ہے طرزِ تخاطب میں بزرگوں کے لئے
قبلہ و کعبہ کے اَلقاب ہوا کرتے تھے
کاش دنیا میں مَحَبت کے سِوا کچھ بھی نہ ہو
یاد ہے آنکھ میں کیا خواب ہوا کرتے تھے
وہ تو ساحِل کی طرح آپ مِلے تھے ورنہ
میری قسمت میں تو گرداب ہوا کرتے تھے
سو گئے اوڑھ کے مِٹی کے لِبادے وہ بھی
جو کبھی حُسن کے مَہتاب ہوا کرتے تھے
فاتِحہ پڑھ کے مبارک میں بہت رویا آج
آہ کیا پھول سے احباب ہوا کرتے تھے
شاعر مبارک صدیقی۔