ایک عقاب بادلوں کو چیرتا ہوا پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا اور اس کا چکر لگا کر ایک صدیوں پرانے دیودار کے درخت پر جا بیٹھا۔وہاں سے جو منظر دکھائی دے رہا تھا، اس کی خوبصورتی میں وہ محو ہو گیا۔
اسے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ دنیا ایک سرے سے دوسرے سرے تک تصویر کی طرح سامنے کھلی رکھی ہے۔کہیں پر دریا میدانوں میں چکر لگاتے ہوئے بہہ رہے ہیں۔
کہیں پرجھیلیں اور اُن کے آس پاس درختوں کے کنج پھولوں سے لدے ہوئے بہار کی پوشاک میں رونق افروز ہیں۔
عقاب نے آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ”اے اللہ میں تیرا کہاں تک شکر ادا کروں۔تو نے مجھے اڑنے کی ایسی طاقت دی ہے کہ دنیا میں کوئی بلندی نہیں ہے، جہاں میں پہنچ نہ سکوں، میں فطرت کے منظروں کا لطف ایسی جگہ بیٹھ کر اٹھا سکتا ہوں جہاں کسی اور کی پہنچ نہیں۔
“
ایک مکڑی درخت کی ایک شاخ سے بول اٹھی۔ ”تم کیوں اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہو؟ کیا میں تم سے کچھ نیچی ہوں؟“
عقاب نے مڑ کر دیکھا۔واقعی ایک مکڑی نے اس کے چاروں طرف شاخوں پر اپنا جالا تان رکھا تھا اور اسے ایسا گھنا بنا رہی تھی کہ گویا سورج تک کو عقاب کی نظر سے چھپا دے گی۔
عقاب نے حیرت سے پوچھا ”تم اس سربلندی پر کیسے پہنچی؟ جبکہ پرندے بھی جنہیں تجھ سے زیادہ اڑنے کی طاقت ہے، یہاں تک پہنچنے کا حوصلہ نہیں کرتے؟ تم تو کمزور ہو، کیا تم رینگ کر یہاں آئی ہو؟“
مکڑی نے جواب دیا۔
”نہیں ایسا تو نہیں ہے۔“
”تو پھر یہاں کیسے آئیں؟“
”جب تم اُڑنے لگے تھے تو میں تمہاری دم سے لٹک گئی اور تم نے خود مجھے یہاں پہنچا دیا۔لیکن میں یہاں اب تمہاری مدد کے بغیر ٹھہر سکتی ہوں، اور اس لئے میری گزارش ہے کہ تم اپنے آپ کو بے کار بڑا نہ سمجھو۔۔۔“
اتنے میں ایک طرف سے تیز ہوا کا جھونکا آیا اور اس نے مکڑی کو اڑا دور کہیں پھینک دیا ۔
سبق: دنیا میں ہزاروں لوگ ہیں جو اس مکڑی سے بہت مشابہ ہیں۔ایسے لوگ بغیر کسی قابلیت اور محنت کے کسی کے سہارے بلندی پر پہنچ جاتے ہیں اور پھر ایسا سینہ پھیلاتے ہیں کہ گویا خدا نے ان کو عقابوں کی سی طاقت اور صلاحیت بخشی ہے، مگر ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ اگر ذرا تیز ہوا چلے تو وہ واپس زمین پر پہنچ جاتے ہیں۔
An eagle pierced through the clouds, reached the peak of a mountain, and circled around before landing on an ancient cedar tree. The view from there was so captivating that he became lost in its beauty. It felt as if the world was spread out before him, like a picture from one end to the other.
Rivers could be seen winding their way through the plains. Lakes surrounded by groves of trees adorned in the garments of spring were blooming with flowers.
Looking up to the sky, the eagle said, “O Allah, how can I thank You enough? You have given me such power to fly that there is no height in the world I can not reach. I can enjoy the scenes of nature from a place where no one else can reach.”
A spider spoke up from a branch of the tree. “Why do you boast about yourself? Am I any less than you?”
The eagle turned to look. Indeed, a spider had woven its web around the branches so densely that it seemed as if it could even block the eagle’s view of the sun.
The eagle asked in surprise, “How did you reach this height? Even birds that have more power to fly than you don’t dare to come here. You are weak; did you crawl up here?”
The spider replied, “No, that’s not the case.”
“Then how did you get here?”
“When you were flying, I clung to your tail, and you yourself brought me here. But now I can stay here without your help, and therefore, I request you not to consider yourself uselessly great.”
Just then, a gust of wind came from one side and blew the spider far away.
Moral: In this world, there are thousands of people who resemble this spider. Such people reach great heights without any skill or effort, relying on someone else’s support, and then boast as if God has endowed them with the power and abilities of eagles. But it only takes a slight breeze to bring them back to the ground.