سبق آموز۔۔۔! بادشاہ اور نیل کنٹھ۔ instructive: A King and kingfisher

ایک بادشاہ کو شکار کرنے کا بہت شوق تھا۔ایک دن بادشاہ اپنے مصاحبوں سمیت جنگل میں گیا،تاکہ پرندوں کا شکار کر سکے،لیکن وہاں انھیں کوئی پرندہ نظر نہیں آیا۔وہ جنگل چھوڑ کر آگے ویرانوں میں چراگاہوں کی طرف روانہ ہو گئے۔راستے میں کئی پہاڑیاں اور ندیاں بھی آئیں،جن کو انھوں نے عبور کیا،لیکن انھیں کوئی پرندہ نظر نہیں آیا۔

آخر دوپہر کے وقت وہ ایک بہت بڑی چراگاہ میں پہنچے۔یہ اتنا بڑا میدان تھا،جس کی حد نظر نہیں آ رہی تھی۔میدان کے عین درمیان میں ایک بڑا اور گھنا سایہ دار درخت کھڑا تھا۔بادشاہ اور اس کے مصاحب بے اختیار درخت کی طرف بڑھتے چلے گئے اور درخت کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر سستانے لگے۔اگرچہ وہ بہت تھک چکے تھے،لیکن عادی شکاریوں کی طرح ان کی نگاہیں اب بھی درخت کی شاخوں میں بیٹھے کسی پرندے کو ڈھونڈ رہی تھیں۔



اچانک بادشاہ کی نظر ایک کنٹھ پر پڑی جو درخت کی سب سے نیچی شاخ پر بیٹھا ہوا تھا۔نیل کنٹھ کو دیکھتے ہی بادشاہ نے اپنے ایک مصاحب کو اشارے سے حکم دیا کہ اسے شکار کرے۔اشارہ پاتے ہی اس کا ایک مصاحب کھڑا ہوا اور غلیل سے اس نیل کنٹھ کی طرف پتھر پھینکا۔جو نشانے پر لگا اور نیل کنٹھ بادشاہ کے سامنے آ گرا۔بادشاہ نے نیل کنٹھ کو پکڑ کر ایک مصاحب کے حوالے کیا کہ وہ اسے ذبح کر لے۔

جونہی چاقو نیل کنٹھ کی گردن کے قریب آیا،اچانک نیل کنٹھ کے منہ سے نکلا:”اے عظیم بادشاہ!مجھے مت ماریئے۔میں آپ کا فائدہ چاہتا ہوں۔اگر آپ مجھے مار دیں گے تو تمام عمر پچھتائیں گے۔مجھے مار کر آپ کو کیا ملے گا؟میں تو بہت ہی چھوٹا ہوں اور مجھے مارنے سے آپ کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔“
نیل کنٹھ کو انسانوں کی طرح بولتا دیکھ کر بادشاہ بہت حیران ہوا۔
وہ نیل کنٹھ کی بات سن کر بولا:”اے نیل کنٹھ!تم تو بول بھی سکتے ہو۔“
نیل کنٹھ نے جواب دیا:”اے عظیم بادشاہ!جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔میری گزارش کو دھیان سے سنیے گا۔میں تو آپ کی یہاں آمد کا برسوں سے انتظار کر رہا ہوں کہ آپ تشریف لائیں تو میں آپ کو اپنے پَردادا کا وہ پیغام پہنچاؤں جو وہ آپ کے لئے چھوڑ گئے تھے۔میرے پَردادا نے مرنے کے بعد آپ کے لئے ایک بہت بڑا ہیرا چھوڑا تھا جو آپ کے ٹخنے کے برابر ہے۔
ان کی خواہش تھی کہ وہ ہیرا آپ کے حوالے کیا جائے۔اسی لئے میں عرصے سے آپ کا منتظر تھا۔اگر میں ایسا نہ کر سکتا تو میرا ضمیر ہمیشہ مجھے ملامت کرتا رہتا۔میں اس امانت کے بدلے میں آپ سے معافی کا طلب گار ہوں۔“
نیل کنٹھ کے منہ سے یہ کہانی سننے کے بعد بادشاہ بولا:”پہلے تو میں اس بات پر حیران ہوں کہ ایک نیل کنٹھ اتنی روانی سے کیسے بول سکتا ہے؟اور کوئی چارہ بھی نہیں کہ میں تمہاری کہانی پر اعتبار نہ کروں کہ تمہارے پاس میری کوئی امانت بھی پڑی ہوئی ہے۔

نیل کنٹھ بولا:”بادشاہ سلامت!جان کی امان پاؤں تو مجھے کچھ اور بھی عرض کرنا ہے۔اس ہیرے کے علاوہ میرے پَردادا نے چند نصیحتیں بھی کی تھیں جو مجھے آپ تک پہنچانی تھیں،تاکہ یہ حکمت کی باتیں لوگ آپ کے منہ سے سنیں اور ان پر عمل کریں تو سب کا فائدہ ہو گا۔“
بادشاہ بولا:”وہ نصیحتیں کیا ہیں؟اچھی بات ہے کہ حکمت کی باتیں میرے اور میرے مصاحبوں تک پہنچیں۔

نیل کنٹھ اجازت ملنے پر بولا:”میرے پَردادا نے جو باتیں بتائیں تھیں وہ یوں تھیں:
نمبر ایک:جب کوئی آپ سے میٹھی میٹھی باتیں کرے تو اس پر بھروسا نہ کریں۔
نمبر دو:کبھی کسی ایسی چیز کی واپسی کی اُمید نہیں کریں جو ایک دفعہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے اور نمبر تین:جس چیز کو حاصل کرنے میں آپ ناکام ہو جائیں،اس کے بارے میں دوبارہ نہیں سوچیں۔

اب بادشاہ سلامت!مجھے اجازت دیں،تاکہ میں وہ ہیرا آپ کو لا کر دوں جو میرے پَردادا آپ کے لئے چھوڑ گئے تھے۔وہ اس درخت کے اوپری شاخوں میں،میں نے چھپا رکھا ہے۔شاخیں چونکہ پتلی ہیں،اس لئے آپ میں سے کوئی وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔“
بادشاہ سلامت نے پھر زیادہ نہیں سوچا اور مصاحب کو نیل کنٹھ کو آزاد کرنے کا حکم دیا اور مصاحب نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر نیل کنٹھ کو آزاد کر دیا۔
وہ اُڑا اور شکریہ ادا کرنے کے لئے بادشاہ سلامت کے کندھے پر بیٹھ گیا۔پھر اس نے پَر پھیلائے۔اُن کو پھڑپھڑایا اور پھر بولا:”جناب عالی!مجھے انتظار کے لئے معاف کر دیجیے گا۔ادھر کچھ دیر انتظار کیجیے گا۔جب تک میں اُڑتا ہوا درخت کی چوٹی تک پہنچ جاؤں۔“
پھر وہ اُڑا اور اُڑتا ہوا درخت کی سب سے اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔اب وہاں تک پتھر بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔
وہ ایک شاخ پر جا کر مزے سے بیٹھا ہوا تھا۔اُدھر بادشاہ اور مصاحب انتظار کرتے رہے کہ کب نیل کنٹھ ہیرا لے کر واپس آتا ہے،لیکن لگتا تھا کہ نیل کنٹھ اپنا وعدہ بھول چکا ہے۔وہ تو شاخ پر بیٹھا جھولتا رہا،ہیرا لانے کی بات تو بہت دور کی تھی۔شام ہو گئی اور اندھیرا چھانے لگا تو بادشاہ نے آواز دی:”نیل کنٹھ!تمہارا وہ ہیرا کدھر ہے جو تمہارے پَردادا نے میرے لئے رکھا تھا۔
اسے نیچے لے کر آؤ۔ہمیں واپس بھی جانا ہے۔“
نیل کنٹھ نے بادشاہ کی بات غور سے سنی اور پھر اونچی آواز میں ہنسنے لگا اور بولا:”بادشاہ سلامت!میں نے جو کچھ کہا ہے،اس کی معافی دیجیے گا۔اگر آپ محل جانا چاہتے ہیں تو شوق سے چلے جائیے۔آپ انتظار کس بات کا فرما رہے ہیں۔میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میٹھی میٹھی باتوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے اور جو چیز ایک دفعہ ہاتھ سے نکل جائے اس کی واپسی کی اُمید نہ رکھیں اور جس چیز کو حاصل کرنے میں ناکام ہو جائیں،اس کے متعلق مت سوچیں۔
آپ عقل والے ہیں،خود سوچیں آپ کے ٹخنے جتنا بڑا ہیرا میں کیسے اُٹھا سکتا ہوں؟اتنا بڑا تو میں خود بھی نہیں ہوں۔میں نے تو ہیرے کی کہانی اپنی جان بچانے کے لئے گھڑی تھی۔آپ نے اس پر اعتبار کیا اور مجھے آزاد کر دیا۔اب میں آپ کی دسترس سے باہر ہوں۔میرے الفاظ کو یاد رکھیے گا،ان چیزوں کی واپسی کی اُمید مت رکھیں،جنھیں آپ ایک دفعہ کھو چکے ہیں۔جناب عالی!اب محل کی طرف روانہ ہو جائیے،اس سے پہلے کہ اندھیرا چھا جائے۔“
انھوں نے افسردگی سے مصاحبوں کو واپس روانگی کا حکم دیا۔نیل کنٹھ نے انھیں جاتے دیکھا تو پَر پھڑپھڑاتا ہوا اُڑ گیا۔

A king was very fond of hunting. One day, the king, along with his courtiers, went into the forest to hunt birds, but they didn’t see any birds there. They left the forest and headed towards the pastures in the wilderness. On the way, they crossed several hills and rivers but still didn’t see any birds.

Finally, at noon, they reached a large pasture. It was such a vast field that its boundaries were not visible. In the very middle of the field stood a large and dense shady tree. The king and his courtiers couldn’t resist and walked towards the tree, sitting under its cool shade to rest. Although they were very tired, their eyes, like those of experienced hunters, were still searching the tree branches for any bird.

Suddenly, the king’s eyes fell on a Kingfisher sitting on the lowest branch of the tree. As soon as he saw the Kingfisher, the king signaled one of his courtiers to hunt it. Upon receiving the signal, one of the courtiers stood up and threw a stone at the Kingfisher with a slingshot, hitting it and causing it to fall before the king. The king picked up the Kingfisher and handed it to a courtier to slaughter.

As soon as the knife came near the Kingfisher’s neck, it suddenly spoke: “Oh great king! Please don’t kill me. I want your benefit. If you kill me, you will regret it for the rest of your life. What will you gain by killing me? I am very small and killing me won’t bring you any benefit.”
The king was astonished to see the Kingfisher talking like a human.

Listening to the Kingfisher, the king said: “Oh Kingfisher! You can even talk.”
The Kingfisher replied: “Oh great king! If I am granted safety, I will present my request. Please listen carefully. I have been waiting for your arrival here for years to deliver the message left by my great-grandfather for you. My great-grandfather left a very large diamond for you, as big as your ankle. His wish was for the diamond to be handed over to you. That’s why I have been waiting for you for so long. If I couldn’t do this, my conscience would always blame me. In exchange for this trust, I seek your pardon.”

After listening to the Kingfisher’s story, the king said: “First, I am surprised that a Kingfisher can speak so fluently. Secondly, I have no reason to doubt your story that you possess something of mine.”
The Kingfisher said: “Great king! If I may, I have a few more things to say. Besides the diamond, my great-grandfather also left some advice for you. These words of wisdom are meant to be heard from your mouth so that people can follow them and everyone will benefit.”

The king said: “What are those pieces of advice? It’s good that words of wisdom will reach me and my courtiers.”
Upon receiving permission, the Kingfisher said: “The things my great-grandfather advised were:
1. Do not trust someone who speaks sweet words.
2. Never hope to get back something that once slips out of your hands.
3. Do not think about something you fail to achieve.”

“Now, great king! Please allow me to fetch the diamond left for you by my great-grandfather. It is hidden in the upper branches of this tree. The branches are thin, so none of you can reach it.”
The king didn’t think much and ordered his courtier to free the Kingfisher. Without wasting a moment, the courtier freed the Kingfisher. It flew and sat on the king’s shoulder to express gratitude. Then it spread its wings, fluttered them, and said: “Sir, please excuse the wait. Just wait here for a while until I fly to the top of the tree.”

Then it flew and perched on the highest branch of the tree. Now, even stones couldn’t reach there. It was comfortably sitting on a branch. Meanwhile, the king and courtiers kept waiting for the Kingfisher to return with the diamond, but it seemed the Kingfisher had forgotten its promise. It kept swinging on the branch, far from bringing the diamond. As the evening turned into night, the king called out: “Kingfisher! Where is that diamond your great-grandfather left for me? Bring it down. We have to return.”

The Kingfisher listened to the king carefully and then laughed loudly, saying: “Great king! Forgive me for whatever I said. If you want to return to the palace, you are welcome to do so. What are you waiting for? I had told you not to be deceived by sweet words, not to hope for the return of something that slips out of your hands, and not to think about something you fail to achieve. You are wise; think for yourself, how could I carry a diamond as big as your ankle? I am not even that big myself. I made up the diamond story to save my life. You believed it and set me free. Now I am beyond your reach. Remember my words, do not hope for the return of things you once lose. Great king! Now head back to the palace before it gets dark.”

They sadly ordered their courtiers to return. The Kingfisher saw them leave, fluttered its wings, and flew away.