ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک چیل اور گوہ کی دوستی ہوگئی ۔ایک دن چیل نے گوہ سے کہا۔کیوں نہ ہم پاس رہیں۔پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔ کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی“۔
گوہ نے چیل کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کر کے رہائش کے لئے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔اس میں شگاف تھا۔دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔گوہ اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔
کچھ عرصہ بعد گوہ کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی۔
اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے گوہ کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔
جب گوہ واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔اس نے بچے کو اِدھر اُدھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔دوسرے دن گوہ جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ اب اس کا شک چیل پہ گیا لیکن اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔
تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔اس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔ یوں چیل ایک ایک کر کے گوہ کے سارے بچے کھا گئی۔
گوہ کا چیل پر شک اب پختہ یقین میں بدل گیا کہ اس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی۔
خدا نے گوہ کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اُٹھتا دیکھ کر جلدی سے اس کی طرف لپکی۔دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔
چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔بچے بھی بہت بھوکے تھے۔صبر نہ کر سکی۔جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔
ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔گھونسلا بھی جلنے لگا۔ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔اور وہ وہیں جل کر مر گئے۔
نتیجہ:” گھٹیا اور کم ظرف شخص کی دوستی سے بچیں، اس کو جب بھی موقع ملا وہ اپنے فائدے کیلئے آپ کا نقصان ضرور کرئے گا۔
Once upon a time, a kite and a monitor lizard became friends. One day, the kite said to the lizard, “Why don’t we live close by? I often have to leave my home in search of food, leaving my children alone. I worry about them constantly. Why don’t you live nearby and at least look after my children?”
The lizard agreed and eventually found an old tree with a hollow trunk that had a crevice. Both liked the place. The lizard moved into the crevice with her children, and the kite settled on the tree.
After some time, when the lizard was away, the kite, hungry and with her children hungry too, took one of the lizard’s children to her nest, ate it herself, and fed it to her children. When the lizard returned, she found one of her children missing. She searched everywhere but could not find it and began to weep. The kite pretended to be sympathetic.
The next day, when the lizard went hunting in the forest and returned, she found another child missing. She began to suspect the kite but had no proof. On the third day, the same thing happened. Another child went missing. Thus, the kite ate all of the lizard’s children one by one.
The lizard’s suspicion turned into a firm belief that the kite had eaten all her children, but she remained silent and did not complain. She cried all the time and pleaded to God.
God heard the lizard’s plea and punished the kite. One day, driven by hunger, the kite flew into the forest in search of food and saw some hunters roasting their catch over a fire. Starving, the kite couldn’t resist and grabbed some meat with her claws, which had some embers stuck to it, and took it to her nest. The grass and twigs in the nest caught fire. The wind blew strongly, and the fire spread quickly, leaving no time for the kite to save herself or her children. They all burned to death.
Moral: “Avoid the friendship of a mean and lowly person; given the chance, they will harm you for their own benefit.”
Babut khoob
😊 🙏