سبق آموز۔۔۔! بادشاہ اور قیدی۔ Instructive: A king and Prisoner

کسی زمانے میں ایک بادشاہ نے ایک قیدی کو کسی وجہ سے پھانسی کا حکم دیا اور جب قید خانے میں سے قیدی کو لایا گیا تو اس سے مرنے سے پہلے آخری خواہش پوچھی گئی قیدی نے کہا میں کیونکہ ایک اچھے گھرانے سے ہوں لہذا مجھے اعلی نسلی گھوڑوں سے پھانسی لگایا جائے
(اس زمانے میں پھانسی کے تخت پر چڑھا کر گھوڑوں سے بندھ کر گھوڑوں کو دوڑیا جاتا تھا اس طرح پھانسی کی سزا ہوتی تھی)خیر گھوڑوں کو لایا گیا تو قیدی بول اٹھا ان میں ایک تو نسلی ہے پر ایک نسلی نہیں ہے لہذا میری آخری خواہش مکمل نہیں ہوئی
بادشاہ نے گھوڑوں کے مالک کو بلوایا اور پوچھا کیا یہ بات سچ ہے گھوڑوں کے مالک نے جواب دیا بلکل ایک بلکل اصلی نسل کا لیکن دوسرا میں گدھے کا ملاپ شامل ہے بادشاہ نے حیران ہو کر قیدی سے پوچھا تمہیں کیسے یہ بات پتہ چلی کہ ایک گھوڑا نسلی ہے اور ایک نسلی نہیں
قیدی نے کہا جو نسلی ہے وہ بڑے آرام سے کھڑا تھا جبکہ جو ملاپ گدھے کا ہے وہ گدھے کی طرح کبھی ادھر ٹانگ مار کبھی منہ پھیر کبھی اچھل کر کبھی بیٹھ جا جس سے مجھے علم ہوا بادشاہ قیدی کی دانائی اور سوچ سے بڑا متاثر ہوا اور قیدی کی پھانسی منسوخ کر کے اپنے وزیر سے کہا اس کی ایک روٹی میں اضافہ کر دیا جائے
کچھ دن بعد بادشاہ کے دربار میں ایک سنار دو ہیرے لے کر حاضر ہوا اور بادشاہ کو کہا اگر آپ کی رعایا میں سے کوئی یہ بتا دے کہ ان میں کون سا ہیرا اصلی اور کون سا نقلی اور اس اصلی اور نقلی میں فرق بتا دے تو میں آپ کو دونوں ہیرے انعام میں دے دوں گا
بہت سے لوگوں سے پوچھا مگر کوئی مکمل جانچ نہ کر سکا بادشاہ کے دماغ میں قیدی کا خیال آیا بادشاہ نے اس کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا سپاہی قید خانے میں سے قیدی کو لے کر حاضر ہوئے اور قیدی کو ہیرے جانچ پڑتال کے لیے دئیے گئے قیدی نے کچھ ہی لمحوں میں بتا دیا کہ ایک اصلی اور دوسرا نقلی ہے بادشاہ نے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا ؟
قیدی نے کہا کہ اصلی ہیرا رگڑنے سے کبھی گرم نہیں ہوتا جبکہ نقلی ہیرا رگڑنے سے گرم ہو جاتا ہے سنار نے وہ دونوں ہیرے بادشاہ کو انعام میں دے دئیے اور چلتا بنا
بادشاہ قیدی کی دانائی اور سوچ پر بہت زیادہ خوش ہوا اور سپاہیوں سے ایک اور روٹی بڑھانے کا حکم دیا دوپہر کو جب سپاہی قیدی کو ایک اور روٹی اضافے کے ساتھ دینے آئے تو قیدی نے کہا بادشاہ بھی کسی لانگڑی کا بیٹا ہے سپاہیوں نے قیدی کی یہ بات بادشاہ تک پہنچا دی بادشاہ کو غصہ آیا اور سپاہیوں سے قیدی کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا
اور قیدی سے اس بات کی وضاحت مانگی گئی قیدی نے بادشاہ کو کہا اپنے خاندان کے بارے میں کسی سے پتہ کروا لو
بادشاہ کی سلطنت میں سب سے ادھیڑ عمر شخص کو ڈھونڈا گیا اور اس سے بادشاہ کے آباوواجداد کے بارے میں پوچھا گیا ادھیڑ عمر شخص نے بتایا کہ یہاں اس بادشاہ سے پہلے اس کا باپ بادشاہ تھا لیکن وہ بادشاہ بننے سے پہلے لانگڑی تھا کیونکہ اس بادشاہ سے پہلے ایک بادشاہ تھا اس کا اپنا کوئی بیٹا نہ تھا اس بادشاہ نے اعلان کیا تھا کوئی ایسا شخص جو میری رعایا کو بھوکا نہ مرنے دے تو آپ کا باپ لانگڑی تھا اس دربار کا اس نے حامی بھری کہ میں رعایا کو بھوک سے نہیں مرنے دوں گا اس طرح بادشاہ سلامت آپ کے باپ کو سلطنت دی گئی تھی
بادشاہ نے قیدی سے پوچھا تمہیں کیسے پتہ چلا کہ میں لانگڑی کا بیٹا ہوں
قیدی نے کہا کہ میں نے جتنے حکمت اور دانائی کی باتیں تمہیں بتاتا تم بجائے مجھے آزادی دینے یا ہیرے جواہرات دینے کی بجائے میری روٹی میں اضافہ کر دیتے تھے اگر تمہاری جگہ پر کوئی خاندانی شخص ہوتا وہ مجھے ضرور کوئی ہیرے جواہرات دیتا اور مجھے قید خانے سے رہا کرتا لیکن تیری حرکتیں تیری نسل کا پتا بتاتی ہیں

: انسان اپنی شہرت پیسے شکل سے نہیں بلکہ اپنی حرکتوں سے اپنی نسل کا پتا بتادیتا ہے۔،

میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرہ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے۔

Once upon a time, a king sentenced a prisoner to death for some reason. When the prisoner was brought from the dungeon, he was asked his last wish before dying. The prisoner said, “Since I come from a noble family, I wish to be executed by thoroughbred horses.” (In those times, executions were carried out by tying the condemned to horses that would then be made to run, resulting in the execution.) The horses were brought, and the prisoner exclaimed, “One of these is a thoroughbred, but the other is not, so my last wish has not been fulfilled.”

The king summoned the owner of the horses and asked if this was true. The owner confirmed, “Indeed, one is a purebred, but the other is mixed with a donkey.” Astonished, the king asked the prisoner how he knew that one horse was purebred and the other was not. The prisoner replied, “The thoroughbred stands calmly, while the one mixed with a donkey kicks, turns its head, jumps, and sometimes sits down, just like a donkey, which is how I knew.”

Impressed by the prisoner’s wisdom and insight, the king canceled the execution and instructed his minister to increase the prisoner’s daily bread by one loaf.

A few days later, a jeweler came to the king’s court with two diamonds. He said, “If anyone in your kingdom can distinguish between the real and the fake diamond, I will give you both as a reward.” Many people tried but failed to tell the difference. The king thought of the prisoner and ordered him to be brought to the court. The guards brought the prisoner, and he was given the diamonds to examine. Within moments, the prisoner identified the real and the fake diamond. The king asked how he knew. The prisoner explained, “A real diamond never gets warm when rubbed, but a fake diamond does.” The jeweler handed both diamonds to the king and left.

The king, very pleased with the prisoner’s wisdom and insight, ordered the guards to increase his bread by another loaf. In the afternoon, when the guards brought the additional bread, the prisoner remarked, “The king must be the son of a cripple.” The guards reported this to the king, who became angry and ordered the prisoner to be brought to the court. The king demanded an explanation for his statement. The prisoner replied, “Investigate your family history.”

The oldest person in the kingdom was found and asked about the king’s ancestors. The elderly person explained that before the current king, his father was the king. However, before he became king, he was crippled. The previous king had no son of his own and had announced that whoever could ensure the well-being of the subjects would be given the kingdom. The current king’s father, though crippled, had promised to do so and thus was given the kingdom.

The king asked the prisoner how he knew that he was the son of a cripple. The prisoner replied, “Despite the wisdom and insight I have shown, instead of granting me freedom or jewels, you only increased my bread. If you were from a noble family, you would have rewarded me with jewels and set me free from the dungeon. But your actions reveal your lineage.”

A person reveals their true lineage not through fame, wealth, or appearance, but through their actions.