ایک چھوٹی سی پہاڑی میں چوہوں کے کئی بل تھے، اس پر پودے بھی لگے ہوئے تھے۔پودوں کے درمیان میں چوہوں کے بل دکھائی نہیں دیتے تھے۔ان بلوں میں ایک بل ایک چوہیا کا بھی تھا۔وہ اکیلی رہتی تھی۔وہ کافی عقلمند تھی.
اسی لئے سب چوہے اس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ایک بار یوں ہوا کہ برسات کے موسم میں بارشیں خوب برسیں، جس کے باعث کئی کیڑے مکوڑے اور دوسرے جانور گھبرا کر ان بلوں کی طرف آ گئے۔
چھوٹے موٹے کیڑے مکوڑے تو چوہوں کی غذا بن گئے، جبکہ بڑے کیڑوں کو انہوں نے وہاں سے مار بھگایا۔انہی میں ایک کچھوا بھی شامل تھا
وہ ہر کسی کے بل میں گھس جاتا اور وہاں موجود ذخیرہ کی گئی خوراک چٹ کر جاتا۔چوہوں نے بڑی کوشش کی کہ اسے وہاں سے بھگا دیں،مگر انہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔کچھوا بڑا ہوشیار اور چالاک تھا۔وہ چوہوں کی ہر چال کو ناکام بنا دیتا تھا۔تنگ آ کر سب چوہے عقلمند چوہیا کے پاس گئے اور اس سے مدد طلب کی۔
چوہیا نے سب چوہوں کو تسلی دی کہ وہ کچھوے سے نجات کے بارے میں کچھ سوچتی ہے۔
چوہے اس کی تسلی پر واپس لوٹ گئے۔کچھ دور پودوں کی آڑ میں کچھوا ان کی سب باتیں سن رہا تھا۔کچھوے نے پہلے چوہیا کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا۔وہ چپکے سے اس کے بل میں داخل ہو گیا۔چوہیا،کچھوے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اس سے کیسے جان چھڑائی جائے؟کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے چہرے پر گہرا اطمینان پھیل گیا،جیسے وہ کوئی فیصلہ کر چکی ہو۔
کچھوا چوہیا کے بل میں داخل ہو گیا۔
چوہیا نے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ دو موٹے موٹے سرخ بیر طشت میں رکھ کر وہ اس کے پاس چلی آئی۔کچھوا حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔چوہیا نے کہا کہ اس وقت گھر میں اور کوئی چیز نہیں ورنہ خاطر تواضح زیادہ کرتی۔کچھوے نے دونوں سرخ بیر اٹھائے اور ایک ایک کر کے منہ میں ڈال لئے۔پیروں کا گودا بڑا رسیلا اور میٹھا تھا۔کچھوے نے سوچا کہ وہ اب یہیں رہے گا،کم از کم میٹھے بیر تو کھانے کو ملیں گے۔
کچھوے کو معلوم نہیں تھا کہ پیر کے اندر گٹھلی ہوتی ہے،جسے چوس کر پھینک دیا جاتا ہے۔
اس نے لالچ میں آ کر گٹھلی نگلنے کی کوشش کی تو وہ اس کے حلق میں جا پھنسی۔پھر کیا تھا؟کچھوا تکلیف سے بلبلا اُٹھا۔اس سے نہ تو بولا جا رہا تھا اور نہ ہی صحیح طرح سے سانس لی جا رہی تھی۔کچھ ہی دیر بعد اسے سانس لینا دشوار ہو گیا۔چوہیا یہ دیکھ کر بڑی پریشان ہوئی کہ اگر کچھوا اس کی بل میں ہی مر گیا تو اسے کون اٹھا کر باہر لے جائے گا؟اچانک اس کے ذہن میں ترکیب آئی۔
اس نے کچھوے سے کہا کہ اگر وہ فوراً حکیم الو کے پاس چلا جائے تو وہ اس کی کچھ مدد کر سکتا ہے۔کچھوا تکلیف سے نہایت پریشان تھا۔اس نے اشارے سے حکیم کا پتا پوچھا تو اس نے اسے راستہ سمجھایا۔کچھوا گرتا پڑتا اُٹھا اور اس طرف چل پڑا۔
اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا حلق تھام رکھا تھا۔راستہ بڑا خراب تھا۔ہر طرف کیچڑ پھیلا ہوا تھا۔کچھوا اس سے بے خبر اپنی تکلیف کی شدت میں آگے بڑھتا چلا گیا۔
چوہیا اس کا پیچھا کر رہی تھی۔کچھوا جب کافی آگے بڑھ آیا تو اس کے پاؤں کیچڑ میں دھنس گئے۔وہ حلق کی تکلیف کو بھول کر کیچڑ سے پاؤں نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ایک طرف گٹھلی حلق میں پھنسی ہوئی اذیت پہنچا رہی تھی تو دوسری طرف دلدل آہستہ آہستہ اس کا جسم نگلتا جا رہا تھا۔
جب کچھوا دلدل میں بالکل غائب ہو گیا تو چوہیا نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس اپنے گھر لوٹ آئی۔
کچھوے سے سب کی جان چھوٹ چکی تھی۔برسات کا موسم بھی ختم ہو چکا تھا تیز دھوپ ہر طرف پھل گئی تھی۔اب چوہوں کو کسی کا خوف باقی نہیں رہا تھا۔چوہیا نے سب کو اپنے گھر بلا کر ان کی دعوت کی اور خوب ہلہ گلہ کیا۔
In a small hill, there were several mouse holes, surrounded by plants. The holes were not visible among the plants. Among these holes, there was one belonging to a female mouse. She lived alone and was quite intelligent and thus, all the mice respected her greatly.
One time, during the rainy season, it rained heavily, causing many insects and other animals to take refuge near the mouse holes. Small insects became food for the mice, while larger ones were chased away. Among them was a small tortoise, slightly larger than the mice.
The tortoise would sneak into every hole and eat the stored food. The mice tried hard to drive it away but were unsuccessful. The tortoise was clever and thwarted every attempt by the mice. Frustrated, the mice went to the wise female mouse for help.
The female mouse assured them that she would think of a way to get rid of the tortoise. The mice, reassured, went back. The tortoise, hidden among the plants, overheard everything. It decided to teach the female mouse a lesson and secretly entered her hole.
The female mouse was thinking about how to get rid of the tortoise. After some thought, a deep satisfaction spread across her face, as if she had made a decision. The tortoise entered her hole. The female mouse did not ask any questions but brought two plump red berries on a platter to the tortoise.
The tortoise looked at her in surprise. She told the tortoise that she had nothing else at home, otherwise, she would have offered more. The tortoise took both berries and ate them one by one. The pulp was juicy and sweet. The tortoise thought it would stay there since at least it would get sweet berries to eat.
The tortoise did not know that the berries had pits that were to be sucked and discarded. Greedily, it tried to swallow the pit, which got stuck in its throat. In pain, the tortoise began to thrash around. It could neither speak nor breathe properly. Soon, it became difficult for the tortoise to breathe.
Seeing this, the female mouse became worried, thinking that if the tortoise died in her hole, who would take it out? Suddenly, she had an idea. She told the tortoise that if it went to the doctor immediately, it might get some help. In great distress, the tortoise gestured to ask for the doctor’s address, and she explained the way.
The tortoise stumbled and began to move in that direction, clutching its throat with both hands. The path was rough and muddy. Oblivious to this, the tortoise moved forward in agony. The female mouse was following it. When the tortoise had moved quite a distance, its feet got stuck in the mud. Forgetting the pain in its throat, it tried to free its feet. One side, the pit was causing immense pain in its throat, while on the other, the swamp was slowly swallowing its body.
When the tortoise was completely submerged in the swamp, the female mouse thanked God and returned home. Everyone was rid of the tortoise. The rainy season was over, and bright sunshine spread everywhere. The mice were no longer afraid of anything. The female mouse invited everyone and celebrated joyfully.
Very good story
Thank you