ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک جنگل میں ایک عقلمند بوڑھا ہدہد رہتا تھا۔ ہدہد آنکھوں پر عینک لگائے ایک شاخ پر چپ چاپ بیٹھا رہتا تھا،جیسے کچھ سوچ رہا ہو۔دن کے وقت اس کے پاس کئی جانور اور پرندے آتے اور جنگل کا سب سے عقل مند پرندہ سمجھ کر اس سے صلاح مشورہ کرتے تھے۔۔
ننھا ہدہد اپنے دادا کے پاس بڑی حیرت سے یہ دیکھتا رہتا۔اس کا جی چاہتا کہ پرندے اور جانور اس کے پاس بھی آئیں اور اسے بھی اپنے اپنے مسائل بتائیں۔
مثلاً ننھے میاں بتاؤ بارش کب ہوگی․․․․؟لیکن کوئی بھی اس کے پاس ایسی باتیں پوچھنے نہ آتا۔دوسری طرف بوڑھے ہدہد کے پاس ہر وقت جانوروں کا تانتا بندھا رہتا۔
ایک روز دو گلہریاں اپنا جھگڑا لے کر آگئیں۔ایک کہنے لگی:جناب مجھے درخت کے نیچے ایک بل سے اخروٹوں کا ڈھیر ملا ہے۔
دوسری نے کہا:سرکار،یہ جھوٹ بولتی ہے۔
وہ اخروٹ مجھے ملے تھے،قبضہ اس نے جما لیا۔
بوڑھے ہدہد نے اپنی عینک کے شیشوں سے جھانکتے ہوئے کہا:بے وقوف گلہریو!لڑائی جھگڑا اچھی بات نہیں۔اس وقت ایک ایک اخروٹ لے کر کھا لو،باقی اسی جگہ حفاظت سے رکھ چھوڑو۔سردیوں میں جب خوب برف باری ہو گی اور تمہیں میلوں تک کوئی چیز کھانے کو نہ ملے گی،تب یہی اخروٹ تمہارے کام آئیں گے لیکن تب بھی برابر برابر بانٹ کر کھانا۔
گلہریوں کو یہ مشورہ پسند آیا اور وہ مطمئن ہو کر چلی گئیں۔
ننھا ہدہد یہ فیصلہ سن کر بہت خوش ہوا اور سوچنے لگا:اگر کوئی جانور میرے پاس بھی اس قسم کا مقدمہ لے کر آیا تو میں بھی ایسا ہی فیصلہ کروں گا۔اتنے میں ننھی چڑیوں کا ایک غول بوڑھے ہدہد کے پاس آیا۔ان میں سے ایک نے کہا کہ ہمیں ایک جگہ دانا پڑا نظر آیا ہے،مگر شبہ ہے کہ وہاں شکاری کا جال بھی ہے۔
ہدہد نے کہا:جہاں بھی شبہ محسوس کرو اس سے بچو۔
دل کو کھٹکا یوں ہی نہیں ہوا کرتا۔
ننھا ہدہد قریب ہی ایک شاخ پر بیٹھا سارا دن عقل مند ہدہد کے پاس آنے والے جانوروں کو دیکھتا۔وہ حیران بھی ہوتا اور افسوس بھی کرتا کہ کوئی اس کے پاس کیوں نہیں آتا․․․․؟
ایک دن ننھے ہدہد کو یہ خیال آیا کہ دادا ہدہد کے پاس جو عینک ہے،شاید اسی میں کوئی خاص بات ہے۔اس کے دل نے کہا دراصل یہی عینک انہیں عقل مندوں والی باتیں سکھاتی ہے۔
یہ سوچ کر اس نے فیصلہ کیا کہ وہ دادا کی عینک چرا لے۔ایک روز دوپہر کے وقت جب بوڑھا ہدہد آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا،ننھے ہدہد نے موقع غنیمت جانا اور چپکے سے اس کی عینک اتار لی۔اس کے بعد وہ واپس اپنی جگہ پر چلا آیا اور بوڑھے ہدہد کی طرح ناک پر عینک ٹکا کر”عقل مد“بن بیٹھا۔پھر وہ جانوروں کا انتظار کرنے لگا کہ وہ اس کے پاس آئیں اور کام کی باتیں پوچھیں۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک چکوری آکر اس کے پاس بیٹھ گئی اور پوچھنے لگی:ہدہد میاں،آج رات آسمان پر پورا چاند نکلے گا یا نہیں․․․․؟
ننھے ہدہد نے بوڑھے کی نقل کرتے ہوئے عینک کے شیشوں کے اوپر سے چکوری کو دیکھا اور اس کے بعد کچھ دیر ذہن پر زور ڈالا،مگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آئی۔کبھی خیال آتا کہ کہہ دے ہاں نکلے گا۔پھر سوچتا اگر پورا چاند نہ نکلتا تو بڑی شرمندگی ہو گی۔
اس لئے اس نے سوچا گول مول بات ہی کرنی چاہیے۔یہی سوچ کر کہنے لگا کہ ہو سکتا ہے آج پورا چاند نکل آئے اور یہ بھی ممکن ہے کہ پورا چا ند نہ نکلے۔چکوری یہ دلچسپ جواب سن کر زور سے ہنسی اور اڑ گئی۔ننھے ہدہد کے پاس جو بھی آیا یہ ان کو مطمئن جواب نہ دے سکا۔ہر مرتبہ سوچتا ہی رہ گیا۔نہ عینک نے اسے کوئی جواب سمجھایا،نہ خود اس کے ذہن میں کوئی بات آئی۔
آخر اس نے صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے تو ان باتوں کا کچھ پتہ نہیں۔ سب اس کی جھوٹ موٹ کی عقل مندی کا مذاق اڑاتے ہوئے چلے گئے۔
ننھے ہدہد پر اب یہ بات کھل گئی تھی کہ عینک میں ایسی کوئی بات نہیں جو یہ کسی کو عقل مند بنا سکے۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس کو ابھی واپس دے آئے گا۔بوڑھا ہدہد ابھی تک آنکھیں بند کیے اپنی جگہ بیٹھا تھا۔ننھا ہدہد اُڑ کر اس کے پاس پہنچا اور آہستہ سے عینک اس کی ناک پر رکھ دی۔
بوڑھے نے ایک آنکھ تھوڑی سی کھول رکھی تھی اور اسے دیکھ رہا تھا۔
آپ جاگ رہے ہیں․․․․؟ننھے ہدہد نے شرمندہ ہو کر پوچھا۔ہاں،میں نے تمہاری حرکتیں دیکھ لی ہیں۔بوڑھے ہدہد نے سنجیدگی سے کہا۔ جتنی عمر کم ہو گی،اتنا تجربہ بھی کم ہو گا اور عقل بھی اتنی ہی تھوڑی ہو گی۔درخت پر سارا سارا دن اور ساری ساری رات بیٹھے رہنے کے بجائے یہ وقت تمہیں جنگل میں گھوم پھر کر گزارنا چاہیے۔
اس طرح تمہارے تجربے اور سمجھ بوجھ میں اضافہ ہو گا۔پھر جب تم میری عمر کو پہنچو گے تو عمر بھر کا تجربہ تمہیں میری طرح عقلمند بنا دے گا۔
بوڑھے ہدہد کی یہ بات ننھے ہدہد کی سمجھ میں آگئی تھی۔اب وہ کچھ وقت بوڑھے ہدہد سے عقل مندی کی باتیں سنتا،پھر جنگل کی سیر کو نکل جاتا۔ وہ جہاں کہیں بھی جاتا،اپنا دماغ اور اپنی آنکھیں کھلی رکھتا اور ہر چیز کو بڑے غور سے دیکھتا اور یاد رکھتا۔اس طرح عمر کے ساتھ ساتھ اس کے علم میں اضافہ ہوتا گیا۔اب اگر کبھی کوئی اس سے مشورہ لیتا ہے تو اس کا دماغ پہلی کی طرح کورا نہیں تھا،وہ اپنے تجربوں کی وجہ سے پرندوں کو صحیح مشورے دیتا تھا۔
once upon a time there lived a hoopoe in a jungle, He would sit quietly on a branch with glasses on, as if deep in thought. During the day, many animals and birds would come to it, seeking advice, believing it to be the wisest bird in the forest.
The little hoopoe would watch all this with great amazement as it sat beside its grandfather. It wished that animals and birds would also come to it and share their problems. For example, “Little one, tell us when it will rain…” But no one would come to ask it such questions. On the other hand, the old hoopoe was always surrounded by animals.
One day, two squirrels came to settle a dispute. One said, “Sir, I found a pile of walnuts under a tree hole.”
The other said, “Sir, she is lying. I found those walnuts, but she has taken possession of them.”
Peering through his glasses, the old hoopoe said, “Foolish squirrels! Fighting is not a good thing. For now, eat one walnut each and store the rest safely in that place. In winter, when there will be heavy snowfall and you won’t find anything to eat for miles, these very walnuts will come in handy. But even then, share them equally.”
The squirrels liked this advice and left satisfied. The little hoopoe was very happy to hear this decision and thought, “If an animal brings such a case to me, I will make the same decision.” Just then, a flock of small sparrows came to the old hoopoe. One of them said that they saw grains scattered in one place, but suspected that there might also be a hunter’s trap there.
The hoopoe said, “Avoid anything that you find suspicious. Such feelings of unease don’t happen without reason.”
The little hoopoe would sit nearby on a branch all day, watching the animals that came to the wise hoopoe. He was both amazed and saddened, wondering why no one came to him.
One day, the little hoopoe thought that the glasses his grandfather wore might have something special about them. He felt that perhaps these glasses were what taught him wise things. With this thought, he decided to steal his grandfather’s glasses. One afternoon, when the old hoopoe was sitting with his eyes closed, the little hoopoe saw an opportunity and quietly took off his glasses. He then returned to his place and perched the glasses on his nose like the old hoopoe, pretending to be wise. He then waited for animals to come to him and ask for advice.
It wasn’t long before a partridge came and sat beside him, asking, “Hoopoe, will the full moon appear in the sky tonight?”
The little hoopoe, imitating his grandfather, looked over the top of the glasses at the partridge and then thought for a moment. However, he couldn’t come up with any answer. He thought of saying “yes,” but then worried that if the full moon didn’t appear, it would be embarrassing. So, he decided to give a vague answer. He said, “It is possible that the full moon might appear tonight, but it is also possible that it might not.” The partridge laughed loudly at this ambiguous answer and flew away.
Anyone who came to the little hoopoe was not satisfied with his answers. Each time, he kept thinking and couldn’t come up with a reply. Neither did the glasses offer him any answer, nor did anything come to his mind. Finally, he admitted, “I don’t know anything about these matters.” Everyone mocked his fake wisdom and left.
The little hoopoe then realized that there was nothing special about the glasses that could make someone wise. He decided to return them immediately. The old hoopoe was still sitting with his eyes closed. The little hoopoe flew over to him and gently placed the glasses back on his nose.
The old hoopoe had one eye slightly open and was watching him. “You are awake?” the little hoopoe asked, embarrassed. “Yes, I saw your actions,” the old hoopoe said seriously. “The younger you are, the less experience and wisdom you will have. Instead of sitting on the tree all day and night, you should spend this time exploring the forest. This way, your experience and understanding will increase. Then, when you reach my age, a lifetime of experience will make you wise like me.”
The old hoopoe’s words made sense to the little hoopoe. He then spent some time listening to wise things from the old hoopoe and then went out to explore the forest. Wherever he went, he kept his mind and eyes open, observing and remembering everything carefully. Thus, as he grew older, his knowledge increased. Now, when someone asked him for advice, his mind was no longer blank. Because of his experiences, he could give correct advice to the birds.