لاھور کے بازارِ حسن میں ایک فنکار ہوا کرتا تھا
استاد گُلو خاں جو کہ رقاصاؤں کو سنگیت اور رقص کی تعلیم دیا کرتا تھا۔
ایک وقت تھا کہ خاں صاحب کا لاھوراور ملتان کے بالا خانوں میں طوطی بولتا تھا اور اہلِ ذوق خاں صاحب کی تربیت یافتہ رقاصاؤں کی قدر کیا کرتے تھے۔
پھر یوں ہوا کہ اپنے عروج کے زمانہ میں خاں صاحب کو حج پر جانے کا موقع مل گیا۔
مکہ میں طواف کرتے ہوۓ عشق کی ایک دبی سی چنگاری سلگ پڑی اور درِ رسول اقدس پر آکربھانبھڑ بن گئ۔
استاد گلو خاں کے ہم نوا کہتے ہیں کہ مدینہ شریف آکر خاں صاحب پر ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی۔
تیسرے روز خاں صاحب نے قافلہ کے امیر سے کہا کہ میں نے مسجد نبوی میں اذان دینی ہے۔
امیر صاحب نے لاکھ سمجھایا کہ یہاں پر پورا ایک نظام ہے جس کے تحت مؤذن اور مکبر اپنے اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں لیکن خان صاحب کو عشق کی جو لوَ لگ چکی تھی وہ چیَن نا لینے دیتی تھی۔
امیرِقافلہ کے بار باراستفسار پر بھی انتظامیہ کی طرف سےاستاد گلو خاں کو اذان کہنے کی اجازت نا ملی تو استاد گلو خاں رو پڑا اور پھر ایسا رویا ایسا رویا کہ محبوب کی طرف سے خود اجازت نامہ آیا کہ اس عاشق کو اذان کہنے کی اجازت دی جاۓ
پھراس دن مغرب کی اذان استاد گلوخاں نےکہی اور ایسے وجد میں کہی کہ اہل مدینہ بھی چونکے بغیر نا رہ سکے
اذان مکلمل ہوئی اور خاں صاحب کی زندگی بدل گئی عشق کا عرق لبالب بھر چکا تھا
اُدھر لاھورمیں لوگ اس انتظار میں تھے کہ کب استاد کی واپسی ہو اور محفلیں دوبارہ جوبن پکڑیں
استاد گلو خاں کو جو اعزاز ملا تھا اب اسکی لاج رکھنے کا وقت آچکا تھا اور استاد نےاسی لاج کو نبھاتے ہوۓ دوبارہ بالا خانوں کی سیڑھیوں پر قدم نہیں رکھےاور اُس پر رونق زندگی کو مکمل تیاگ دیا اور لکڑی کے ایک ٹال پر کلہاڑے سے ایندھن چیرنے لگا۔
قدردان جب آہستہ آہستہ پیچھے پہنچنے لگےتو انکو ایک ہی جواب ملتا کہ میں جس مقام کو چھو آیا ہوں وہ میرے لیۓاعزاز ہے اور میں نے اس اعزاز کی لاج رکھنی ہے .