ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک نیک دل مچھیرا رہتا تھا جو دریا سے مچھلیاں پکڑ کر گزر بسر کرتا تھا۔ ایک سال ایسا ہوا کہ کافی گرمی پڑی اور مچھیرا
تین روز سے گھر پر بیٹھا موسم کے بہتر ہونے کا انتظار کررہا تھا۔لیکن موسم تھا کہ گرم سے گرم ہوتا جارہا تھا۔جو کچھ گھر میں تھا وہ بیٹھ کر کھاپی لیا تھا اسی لئے مجبوراً وہ جال اُٹھا کر دریا کنارے پہنچا۔اُس نے پورے دریا کا جائزہ لیا۔
ہوا تیز چلنے کی وجہ سے دریا میں عجیب وغریب شورمچاہوا تھا۔ہوا کی طاقت سے اُٹھنے والی لہریں ایک دوسرے سے مل کر دریا کے کنارے سے ٹکراتیں اور پھر واپس لوٹ جاتیں۔
مچھیرے کی ہمت تو جواب دے گئی تھی۔اس کے باوجود اُس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور ہمت کرکے اپنی چھوٹی کشتی میں جال سمیت داخل ہو گیا۔ پہلے تو اُس نے کشتی کی صفائی کی اور کشتی کو کھول کر دریا کے بہاؤ پر چھوڑ دیا۔
بیچ دریا میں پہنچ کر اُس نے جال کو سنبھالا اور کھلے دریا میں جال کو ڈال کر کشتی میں آرام سے بیٹھ گیا۔
لہریں زیادہ ہونے کی وجہ سے کشتی کو بُری طرح سے ہچکولے آرہے تھے۔
تھوڑی ہی دیر بعد جال میں تناؤ محسوس ہوا۔مچھیرے سمجھا کہ کوئی بڑی مچھلی جال میں پھنس گئی ہے۔وہ خوش خوش کشتی کو صحیح سمت پر کرکے جال کو آہستہ آہستہ باہر نکالنے لگا۔جال جیسے ہی باہر آیا تو اُس میں کافی تعداد میں چھوٹی بڑی مچھلیاں تھیں۔جال کو اپنی کشتی پر پھیلا کر اس میں سے مچھلیاں نکالنے لگا۔جال میں پھنسی ہوئی ایک سنہری مچھلی انسانی آواز میں بولی۔
”دیکھو مچھیرے مجھے جلدی سے نکالو نہیں تو میں مرجاؤں گی۔“
مچھیرے نے جال سے سنہری مچھلی کو نکال کر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
مچھلی پھر بولی․․․․․․” میں سخت تکلیف میں ہوں۔میرادم گھٹ رہا ہے تم مجھے اور ان تمام مچھلیوں کو رہا کردو۔میں تمہیں بہت سا انعام دونگی۔“ نیک دل مچھیرا سوچ میں پڑ گیا کہ ان کو چھوڑ دیا تو کھاؤں گا کہاں سے ۔
اتنے میں سنہری مچھلی روپڑی اور روتی ہوئی آواز میں بولی۔”میں اس دریائی قبیلے کی شہزادی ہوں۔میں ان مچھلیوں کے ساتھ گھومنے نکلی تھی۔لیکن غلطی سے تمہارے جال میں پھنس گئی ہوں۔میرے گھر والے بہت پریشان ہوں گے۔میں تم سے ہاتھ جوڑ کر کہتی ہوں۔تم مجھے چھوڑ دو اس کے بدلے میں تمہاری کشتی کو سونے میں تبدیل کر سکتی ہوں
”کیا تم واقعی ہی میری کشتی کو سونے میں تبدیل کر سکتی ہو؟“ مچھیرے نے کہا۔
سنہری مچھلی بولی”ہاں میں کر سکتی ہوں․․․․․․․․اگر تم مجھے اور میرے تمام ساتھیوں کو رہا کردو تو میں اپنے گھر روانگی سے پہلے تمہارا یہ کام کردوں گی۔“”کیا تم سچ کہہ رہی ہو؟“سنہری مچھلی بولی۔”ہم کبھی بھی کسی کو دھوکہ نہیں دیتے تم مجھے چھوڑ کر تو دیکھو․․․․․جب سب مچھلیاں رہا ہو جائیں گی تو میں تمہارا یہ کام کرکے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنی دنیا میں چلی جاؤں گی۔
“
”اچھا تو پھر یہ لو سب سے پہلے میں تمہیں چھوڑرہا ہوں۔“مچھیرے نے سنہری مچھلی کے بعد دوسری تمام مچھلیوں کو باری باری سمندر کے پانی میں ڈال دیا۔سنہری مچھلی نے جانے سے پہلے اپنی گردن پانی سے باہر نکالی اور مچھیرے سے بولی”اب میں جارہی ہوں ۔تم اپنی کشتی کی طرف دیکھو۔وہ سونے میں تبدیل ہو چکی ہے۔“مچھیرے نے جب کشتی کو دیکھا تو ہر چیز سونے کی بن چکی تھی۔
وہ بہت خوش تھا۔اُس نے کشتی کو کنارے سے لگا کر اس کی اچھی طرح صفائی کی اور سوچنے لگا۔اس کشتی کو فروخت کرکے اس سے جو رقم حاصل ہو گی اُس سے اپنا مکان بناؤں گا اور دوسری نئی کشتی خرید کر اس سے مچھلیوں کا کاروبار شروع کروں گا۔یہ سوچتا ہوا وہ خوش خوش اپنے گھر پہنچا اور اپنی بیوی کو یہ ساری باتیں بتائیں۔بیوی بھی سنتے ہی بے حد خوش ہو ئی۔
دوسرے روز مچھیرے کی کشتی کو دیکھنے کے لئے کئی لوگ آئے جس نے سب سے زیادہ بولی لگائی کشتی اُس کے حوالے کرکے اپنی تمام رقم سمیٹ کر سیدھا گھر آگیا۔
چند ہی دنوں میں وہ امیر ترین مچھیرا بن گیا۔اب اس کے پاس خوبصورت کشتی اور اپنے رہنے کے لیے نیا مکان ،اچھے لباس سب ہی کچھ تھا۔اس نے کچھ رقم بچا کر محفوظ کرلی تاکہ مشکل وقت میں کام آئے اس سے وہ اپنے گاؤں کے غریب لوگوں کی خاموشی سے مدد بھی کرتا رہتا تھا یوں اپنی نیک دلی کی وجہ سے ملنے والے انعام سے وہ خوش حال ہو گیا اور ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگا۔
جاری ہے۔۔۔
Once upon a time, in a village, there lived a kind-hearted fisherman who made his living by catching fish from the river. One year, it got so hot that the fisherman had been waiting at home for the weather to improve for three days. But the weather kept getting hotter and hotter. He had consumed everything he had at home, so he was forced to take his net and head to the riverbank. He surveyed the entire river.
Due to the strong wind, there was a strange noise coming from the river. The waves created by the force of the wind collided with each other and then hit the riverbank, only to return again. The fisherman’s courage had almost failed him. Nevertheless, he controlled himself and bravely got into his small boat with his net. First, he cleaned the boat and then untied it, letting it drift on the river’s current.
Reaching the middle of the river, he prepared his net and cast it into the open water, then sat comfortably in the boat.
Due to the high waves, the boat was rocking violently.
After a little while, he felt a tension in the net. The fisherman thought that a big fish had been caught in the net. Happily, he steered the boat in the right direction and began to slowly pull the net out. When the net emerged, it was filled with numerous small and large fish. He spread the net over his boat and started to remove the fish. Among them, a golden fish spoke in a human voice.
“Look, fisherman, release me quickly, or I will die.”
The fisherman took the golden fish out of the net and held it in his hands.
The fish spoke again, “I am in great pain. I am suffocating. If you release me and all these fish, I will give you a great reward.” The kind-hearted fisherman thought for a moment that if he released them, he would have nothing to eat.
Just then, the golden fish started crying and said in a sobbing voice, “I am the princess of this river tribe. I had come out with these fish, but by mistake, I got caught in your net. My family must be very worried. I beg you, release me. In return, I can turn your boat into gold.”
“Can you really turn my boat into gold?” the fisherman asked.
The golden fish replied, “Yes, I can… if you release me and all my companions, I will do this for you before I return to my home.”
“Are you telling the truth?” the fisherman asked.
The golden fish said, “We never deceive anyone. Release me and see… Once all the fish are free, I will do this for you and then return to my world with my companions.”
“Alright then, here you go. I am releasing you first,” said the fisherman.
After releasing the golden fish, he released all the other fish into the river one by one. Before leaving, the golden fish lifted its head out of the water and said to the fisherman, “Now I am leaving. Look at your boat. It has turned into gold.”
When the fisherman looked at the boat, everything had turned to gold.
He was very happy. He docked the boat at the shore, cleaned it thoroughly, and began to think. He decided to sell the boat and use the money to build a house and buy a new boat to start a fish business. Thinking this, he happily returned home and told his wife everything. His wife was also very happy upon hearing this.
The next day, many people came to see the fisherman’s boat. He sold it to the highest bidder and collected all the money, returning straight home. Within a few days, he became the wealthiest fisherman. He now had a beautiful boat, a new house to live in, and good clothes. He saved some money for difficult times and quietly helped the poor people in his village. Thus, with the reward he received for his kindness, he lived a happy and prosperous life.
To be continued…