سبق آموز۔۔۔! کوا اور مور۔ Instructive: A crow and peacock

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک کوے کو جنگل کی سیر کا شوق پیدا ہوا تو وہ کوا اُڑتا اُڑتا ایک جنگل میں چلا گیا۔جب وہ وہاں پہنچا تو اس نے ایک جگہ دیکھا کہ بہت سے مور جمع تھے اور سب پروں کو پھیلا کر اپنے خوبصورت پَر دیکھ کر خوش ہو رہے تھے اور رقص کر رہے تھے۔کوا بھی ان موروں کا تماشا دیکھنے لگا۔


ان کے نیلے ہرے اور سنہرے پَر اسے بہت اچھے لگے۔کوے نے دل میں سوچا کہ ان کے پَر کتنے خوبصورت ہیں،یہ دُم پھیلا کر ناچتے ہیں تو اتنے بھلے لگتے ہیں۔میں اگر ان موروں کے پَر جو اِدھر اُدھر گر جاتے ہیں جمع کرکے اپنے پروں پر لگا لوں تو میں بھی مور بن جاؤں گا۔کوے نے یہ سوچ کر اِدھر اُدھر سے مور کے پَر جمع کئے،پروں میں لگائے اور پھر موروں میں جا کر انہی کی طرح رقص کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

جب موروں نے اپنی مخصوص آواز نکالی تو کوے نے بھی چاہا کہ وہ ان کی بولی بولے۔اس نے موروں کی بولی بولنے کیلئے اپنی چونچ کھولی تو وہ موروں کی آواز تو نہ نکال سکا البتہ اس کی چونچ سے کائیں کائیں کی آوازیں نکلنے لگیں،کائیں کائیں کی آواز سُن کر سب مور چونک پڑے اور کہنے لگے ارے یہ تو کوا ہے ہمارے پَر لگا کر ہمارے درمیان آ گیا ہے۔یہ کہہ کر سب موروں نے اس کوے کو گھیر لیا اور ٹھونگیں مارنے لگے۔

کوے نے جب یہ دیکھا کہ اس کا راز کھل گیا ہے تو وہ موروں سے جان بچا کر اُڑا اور واپس اپنے ہم جولی کوؤں میں آ گیا لیکن ہوا یہ کہ جب کوؤں نے اسے دیکھا تو پہچان نہ سکے یہ کوئی مور ان کے درمیان آ گیا ہے سب کوے اس کو دیکھ کر کہنے لگے یہ کوا نہیں ہے،اس کے پَر تو مور کے سے ہیں۔یہ ہم میں کیوں آیا ہے؟یہ کہہ کر سب کوؤں نے ٹھونگیں مار مار کر اسے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔


اپنے ساتھی کوؤں کے حملے کی وجہ سے کوا انہیں یہ بھی نہ بتا سکا کہ وہ مور نہیں بلکہ ان کا ہی ساتھی کوا ہے۔لہٰذا ہوا یہ کہ کوا بے چارہ نہ تو مور بن سکا اور نہ کوؤں میں رہا۔آخر اس نے مایوس ہو کر موروں کے سارے پَر جھاڑ دیئے اور کوؤں میں رہنے لگا۔


اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں دوسروں کی نقل کرنے کی بجائے اپنی شخصیت کو اپنی اچھی عادتوں سے بہتر بنانا چاہئے۔

Once upon a time, a crow developed a desire to visit the forest, so he flew to a jungle. When he arrived, he saw many peacocks gathered in one place, spreading their beautiful feathers and dancing joyfully. The crow started watching this spectacle.

The blue, green, and golden feathers of the peacocks fascinated him. The crow thought to himself, “Their feathers are so beautiful, and when they dance with their tails spread, they look so graceful. If I collect the peacock feathers scattered around and attach them to my own, I can become a peacock, too.” With this thought, the crow collected peacock feathers from here and there, attached them to his own, and then tried to dance like the peacocks.

When the peacocks made their distinct calls, the crow also tried to mimic their sounds. He opened his beak to produce the peacock’s call but ended up cawing instead. Hearing the cawing sound, the peacocks were startled and said, “Oh, it’s a crow that has come among us with our feathers attached!” Saying this, all the peacocks surrounded the crow and started pecking him.

Seeing that his disguise was revealed, the crow flew away to save himself and returned to his fellow crows. However, when the crows saw him, they didn’t recognize him and thought he was a peacock among them. They said, “This isn’t a crow; it has peacock feathers. Why has it come among us?” Saying this, all the crows started pecking him, forcing him to flee.

Due to the attack from his fellow crows, the crow couldn’t even tell them that he was actually their companion. As a result, the poor crow neither became a peacock nor remained a crow. Eventually, he gave up, shed all the peacock feathers, and continued living among the crows.

This story teaches us that instead of imitating others, we should improve our own personality with our good habits.